’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘ وہ شکل‘ لباس اور لہجے سے بھکاری لگتا تھا اور وہ عملاً تھا بھی‘ چوک میں کھڑا تھا‘ گاڑیوں کے شیشے بجا رہا تھا اور جو شخص شیشہ نیچے کرنے کی غلطی کردیتا تھا وہ اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیتا تھا‘ میں بھی چوک پر رکا‘ اس نے شیشہ بجایا‘ مجھے دیکھا‘ پہچانا اور ہاتھ جوڑ کر شیشہ نیچے کرنے کا اشارہ کرنے لگا‘ میں نے اسے ’’اگنور ‘‘ کیا لیکن جب اس نے میرا نام لیا تو میں نے شیشہ نیچے کر دیا‘ اس نے ہنس کر کہا ’’میں بھی آپ کا فین ہوں‘‘ میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس کا شکریہ ادا کیا‘ اس دوران اشارہ کھل گیا‘
میں نے اسے اشارہ کیا‘ سگنل کراس کر کے گاڑی روکی اور باہر نکل کر اس کا انتظار کرنے لگا‘ وہ لنگڑا لنگڑا کر میرے پاس پہنچ گیا‘ میرا خیال تھا یہ ’’وی لاگ‘‘ سنتا ہو گا لیکن اس نے یہ بتا کر مجھے مزید حیران کر دیا ’’میں آپ کے کالم پڑھتا ہوں‘‘ میں نے اسے کریدا تو پتا چلا یہ میٹرک پاس ہے‘ بھکر سے اسلام آباد آیا‘ بے روزگاری کی وجہ سے بھکاری بن گیا اور اب بڑی عزت سے 20 ویں گریڈ کے افسروں سے زیادہ کما رہا ہے‘ چوک میں آٹھ گھنٹے کی شفٹ کرتا ہے اور اس کے بعد نہایت ایمان داری سے پوائنٹ دوسرے بھکاری کے لیے خالی چھوڑ دیتا ہے‘ میں اس کی ایمان داری سے متاثر ہوا‘ اس کے بعد اس کا شکوہ شروع ہو گیا‘ اس کا کہنا تھا آپ نے بھکاریوں کے خلاف کالم لکھ کر لاکھوں بھکاریوں کے پیٹ پر لات مار دی‘ آپ کوان کی بددعائیں لگیں گی‘ میں نے پوچھا ’’کیا ملک میں بھکاریوں کو عام اجازت ہونی چاہیے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’آپ کے پاس آپشن کیا ہے؟ کیا آپ لاکھوں بھکاریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں رکھ سکتے ہیں‘کیا آپ انہیں برسوں تک مفت کھانا اور کپڑے دے سکتے ہیں؟ اگر ریاست یہ کر سکتی ہے تو کر لے‘ ہم کون سی فائیو سٹار زندگی گزاررہے ہیں‘ سردی اور گرمی میں چوکوں میں کھڑے ہوتے ہیں‘
غلیظ کپڑے پہنتے ہیں‘ ننگے پائوں پھرتے ہیں اور رات جھگیوں اور کچی آبادیوں میں جا کر سو جاتے ہیں‘ پولیس اگر ہمیں گرفتار کر لے گی تو اسے ہمیں کھانا بھی دینا پڑے گا‘ رہائش بھی‘ دوائی بھی‘ نشہ بھی اور کپڑے بھی چناں چہ آپ ہمیں دس سال جیل میں رکھ لیں‘ ہمارا کیا جائے گا‘ ہم ’’چھٹیاں‘‘ گزار کر دوبارہ چوک میں آ جائیں گے‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولا جناب ‘ ہندوستان میں سینکڑوں سال سے بھکاری ہیں اور یہ رہیں گے‘آج تک کوئی حکمران برصغیر سے بھکاری ختم نہیں کرسکا لہٰذا آپ اور محسن نقوی بھی ہمارا کچھ نہیں اکھاڑ سکیں گے‘ مجھے اس کی آواز میں دھمکی محسوس ہوئی‘ میں نے اسے سلام کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر آگے نکل گیا۔
میں نے 21اپریل کے کالم ’’بھکارستان‘‘ میں وزیر داخلہ محسن نقوی سے درخواست کی تھی آپ کم از کم اسلام آباد سے بھکاری اور منشیات ختم کر دیں‘ محسن نقوی کی مہربانی انہوں نے نوٹس لیا اور پولیس نے بھکاریوں کی گرفتاری کا یونٹ بنا دیا اور گرفتاریاں شروع کر دیں‘ اسلام آباد میں ہزاروں بھکاری ہیں‘
پہلی کھیپ گرفتار ہوئی تو نیا بحران پیدا ہو گیا‘ پولیس قانون کے مطابق گرفتاری کے بعد بھکاریوں کو جیل بھجوانے کی پابند ہے لہٰذا جب بھکاریوں کو جیل بھجوایا گیا تو وہاں جگہ نہیں تھی‘ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے پولیس کو لکھ کر بھجوا دیا‘ ہماری جیل میں 2150 قیدیوں کی گنجائش ہے جب کہ ہمارے پاس 7000 قیدی ہیں‘ ہم بھکاریوں کے لیے کہاں سے گنجائش نکالیں گے؟ ہماری طرف سے معذرت قبول کر لیں‘ اس خط کے ساتھ ہی بھکاریوں کی گرفتاری کا سلسلہ بند ہو گیا جس کے بعد یہ سوال پیدا ہو گیا کیا ریاست اب بھکاریوں کو پورے شہر (پورے ملک) کی مت مارنے کی اجازت دے دے گی؟ آج یہاں دس ہزار بھکاری ہیں تو کل یہ تعداد لاکھ ہو جائے گی اور ریاست منہ دیکھتی رہے گی‘ آخر دنیا میں اس کا کوئی نہ کوئی حل تو ہو گا؟ دنیا کے بے شمار ملکوں نے بھکاریوں کا نیٹ ورک توڑا اور آج وہاں کوئی بھکاری موجود نہیں‘ اگر وہ لوگ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے مثلاً ہم سعودی عرب اور ایران کا ماڈل لے سکتے ہیں‘ سعودی عرب اور ایران میں بھکاریوں کو پکڑ کر فوری سزا دے دی جاتی ہے‘ حکومت نے فورس بنا رکھی ہے‘ یہ لوگ شہروں میں پھرتے رہتے ہیں‘ انہیں جوں ہی کوئی بھکاری نظر آتا ہے‘ یہ اسے پکڑ کر مجسٹریٹ کے پاس لے جاتے ہیں‘
مجسٹریٹ تصدیق کے بعد سزا سناتا ہے اور بھکاری کو درے مار کر وارننگ دے دی جاتی ہے‘ اس کا بائیو میٹرک بھی ہو جاتا ہے اور یہ اگر دوسری بار پکڑا جائے تو سزا ڈبل ہو جاتی ہے اور اس سزا میں ہر بار اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بھکاری توبہ کر لیتا ہے‘ یورپ کے چند ممالک میں بھکاریوں کے ہاتھوں پر ٹریکر لگا دیے جاتے ہیں‘ یہ جوں ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں ہدف سمجھ جاتا ہے یہ عادی بھکاری ہے لہٰذا یہ اسے بھیک نہیں دیتے اور یوں بھکاری بے روزگاری کی وجہ سے کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ ہم کیوں کہ جمہوری ملک ہیں اور ہم یورپ بھی نہیں لہٰذا ہمارے پاس لاکھوں ٹریکر کا بجٹ ہوگا اور نہ ہم بھکاریوں کو سرعام درے مار سکیں گے لیکن اس کے باوجود ہمارے پاس بیسیوں حل موجود ہیں مثلاً ہمارے تھانوں‘ سرکاری دفتروں‘ پرائیویٹ سیکٹر اور اور سی ڈی اے کو صفائی‘ ستھرائی اور گھاس کاٹنے کے لیے لوگ چاہییں‘ حکومت قانون سازی کرے‘ پولیس بھکاری پکڑے‘ سپیشل مجسٹریٹ تصدیق کے بعد انہیں ’’حسب توفیق‘‘ دو چار ماہ کی مشقت کی سزا دے اور پولیس ان سے تھانے‘ واش رومز اور لان صاف کرائے ‘ان کی تعداد اگر بڑھ جائے تو پولیس انہیں پرائیویٹ سیکٹر اور سی ڈی اے کے حوالے بھی کر دے اور سی ڈی اے ان سے گھاس کٹوائے اور سڑکوں اور پارکوں کی صفائی کرائے‘ پرائیویٹ ادارے اور سی ڈی اے بھکاریوں کے لیے ٹریکر خریدلیں اور ان کے پائوں میں لگا دیں تاکہ یہ فرار نہ ہو سکیں‘ ان کی بائیو میٹرک بھی ہو جائے تاکہ یہ اگر دوبارہ پکڑے جائیں تو ان کی سزا ڈبل ہو جائے‘ دوسرا حکومت ان کے اثاثے اور جمع پونجی بھی بحق سرکار ضبط کرنا شروع کر دے تاکہ ان کو مالی نقصان بھی ہو‘ حکومت بھکاریوں کی بحالی کے ادارے اور شیلٹر ہوم بھی بنادے‘
ان میں انہیں مختلف ہنر سکھائے جائیں تاکہ یہ مفید شہری بن سکیں‘ اب سوال یہ ہے اس کے لیے فنڈ کہاں سے آئے گا؟ اس کا حل بھی موجود ہے‘ حکومت اسلام آباد میں اے ٹی ایم‘ ریستورانوں‘ موبائل فونز اور پٹرول پر ’’اینٹی بیگنگ‘‘ ٹیکس لگا سکتی ہے‘ یہ ٹیکس ایک روپے فی سو سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے ‘ عوام کو اس ٹیکس کے بارے میں باقاعدہ بتایا بھی جائے تاکہ یہ خوشی سے یہ ٹیکس برداشت کر سکیں‘فنڈ بعدازاں بھکاریوں کی بحالی پر خرچ ہو اور جو بھکاری بحال ہو جائے انہیں حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر باقاعدہ جاب دے دے‘ حکومت دکانوں‘ ریستورانوں‘ مارکیٹوں‘ چوکوں‘ پارکوں اور مسجدوں اور ان تمام جگہوں پر چندے کے باکس بھی رکھوا دے جہاں لوگ بھکاریوں کو بھیک دیتے ہیں‘ ان باکسز پر لکھا ہو یہ رقم بھکاریوں کی بحالی پر خرچ ہوتی ہے لہٰذا آپ اپنی خیرات بھکاریوں پر ضائع کرنے کی بجائے باکس میں ڈال دیں تاکہ حکومت بھکاریوں کو قدموں پر کھڑا کر سکے‘ اس سے بھی فنڈ جمع ہو جائے گا‘ لوگ بھی بھکاریوں کو رقم دینے کی بجائے ان کی بحالی پر خرچ کریں گے‘ بھکاریوں کے باقاعدہ نیٹ ورک ہیں اور نیٹ ورک چلانے والے لوگ بااثر ہوتے ہیں‘ حکومت ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ کرے‘ انہیں قرار واقعی سزا ہونی چاہیے‘ حکومت اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دے اور اس کی سزا لمبی اور بامشقت ہونی چاہیے تاکہ ملک میں بھکاریوں کے نیٹ ورک توڑے جا سکیں‘
حکومت کو بھکاریوں کے خلاف میڈیا کمپیئن بھی کرنی چاہیے تاکہ بھیک دینے والے لوگ ان پر رحم کرنا بند کر دیں اگر لوگ انہیں بھیک نہیں دیں گے تو بھی ان کا کام بند ہو جائے گا‘ یہ لوگ بچوں سے بھیک منگواتے ہیں اور بچے معصوم ہوتے ہیں‘ وزارت داخلہ یا اسلام آباد انتظامیہ زمرد خان سے مشورہ کرے اور اگر یہ ان بچوں کے لیے الگ سویٹ ہوم بنا دیں اور اس میں بھکاری بچوں کو تعلیم اور تربیت دے دی جائے تو یہ بچے بھی کمال کر سکتے ہیں‘ زمرد خان اگر بھکاری بچوں کو صرف ویٹری کی ٹریننگ دینا شروع کر دیں یا انہیں میڈیکل اسسٹنٹ ہی بنا دیا جائے تو بھی یہ بچے قوم کے لیے سرمایہ بن سکتے ہیں اور آخری تجویز ریاست کا کوئی بھی منصوبہ عوام کی شمولیت کے بغیر کام یاب نہیں ہو سکتا لہٰذا محسن نقوی کو چاہیے یہ اسلام آباد کے شہریوں اور کاروباری طبقے کو اس نیک کام میں شریک کریں‘ انتظامیہ مارکیٹوں اور محلوں میں کمیٹیاں بنا دے اور یہ کمیٹیاں بھکاریوں کو پکڑنا شروع کر دیں اور انہیں بھگانا بھی‘ کمیٹیاں عوام کو بھی سمجھائیں آپ بھکاریوں کو رقم نہ دیا کریں‘ اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے‘ کمیٹیاں ضرورت مندوں کے کھانے اور شیلٹر کا بندوبست بھی کر سکتی ہیں اور بھکاریوں کے لیے روزگار کا انتظام بھی‘ مجھے امید ہے ہم ان اقدامات سے کم از کم اسلام آباد کو بھکاریوں سے پاک کر لیں گے اور یہ یاد رکھیں ہم اگر یہ نیک کام اسلام آباد میں کر لیں تو پھر یہ پورے پاکستان میں ہو جائے گا اور اگر ریاست 20 کلومیٹر کے اسلام آباد میں ناکام ہو گئی تو پھر ہمیں یہ باب ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہیے پھر ہم اس ملک کو بھکارستان بننے سے نہیں روک سکیں گے۔
نوٹ:جون میں ہمارا گروپ استنبول(ترکیہ) اور باکو(آذربائیجان) جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔