فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘ یہ کیریئر کے آخر میں میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے پرنسپل سیکرٹری رہے‘ یہ عہدہ کسی بھی سرکاری ملازم کی زندگی کی معراج ہوتا ہے‘ وزیراعظم کا ہر حکم‘ ہر بڑی پوسٹنگ‘ ہر بڑی ٹرانسفر اور ہر بڑا فیصلہ پرنسپل سیکرٹری کے دفتر سے جاری ہوتا ہے‘ ہم اگر حکومت کو ٹرین سمجھ لیں تو پرنسپل سیکرٹری اس کا انجن ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے فواد صاحب کے کیریئر کا اختتام اچھا نہیں ہوا‘انہیں دوران ملازمت5جولائی 2018ء کوآمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں نیب نے گرفتار کر لیا اور یہ 18ماہ نیب کی حراست میں رہے‘ فواد صاحب جیسے انسان کے لیے قید انتہائی تکلیف دہ تھی مگر اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ان پر کرپشن کا الزام تھا‘
میں نے ان سے جیل میں بھی ملاقات کی اور رہائی کے بعد بھی ان سے ملاقاتیں رہیں‘ میں نے ایک دن ان سے پوچھا ’’آپ کو جیل میں سب سے زیادہ تکلیف کس چیز سے ہوئی‘‘ ان کا جواب تھا ’’ میری بیٹی کی تازہ تازہ منگنی ہوئی تھی‘ مجھے جب گرفتار کیا گیا تو میرے ذہن میں سب سے پہلے یہ خیال آیا بیٹی کا سسرال میرے بارے میں کیا سوچے گا اور کہیں میری گرفتاری سے بیٹی کا رشتہ نہ ٹوٹ جائے بہرحال اللہ کا کرم ہوا‘ یہ لوگ بہت اچھے ثابت ہوئے‘ میری گرفتاری کے بعد میرے گھر آئے اور میری بیگم سے کہا‘ آپ لوگ بالکل فکر نہ کریں‘ یہ مشکل وقت ہے یہ گزر جائے گا اور اس مشکل وقت کا ہمارے رشتے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘‘ فواد صاحب نے ساڑھے چارسال کیس بھگتا‘ یہ قید میں ریٹائر ہوئے اور ان کے اکائونٹس اور اثاثے 2022ء تک منجمد رہے‘ اس کھیل کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو اکثر ایسے کیسز میں نکلتا ہے‘ یہ فروری 2023ء میں باعزت بری ہو گئے اور پھر انہیں نگران حکومت میں پرائیوٹائزیشن کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا‘ عدالتوں نے فواد صاحب کو باعزت بری کر دیا لیکن تین سوال ابھی تک موجود ہیں اگر فواد صاحب بے گناہ تھے تو پھر یہ کرپشن کے الزام میں جیل میں کیوں ریٹائر ہوئے؟ دوسرا‘ بے گناہی کے باوجود یہ 18ماہ جیلوں اورساڑھے چار سال عدالتوں میں دھکے کیوں کھاتے رہے؟ اور تیسرا سوال انہیں ذلیل کرنے والے کسی شخص کا احتساب کیوں نہیں ہوا‘ ان لوگوں سے باز پرس کیوں نہیں ہوئی؟۔
فواد حسن فواد شریف فیملی کے سٹار بیورو کریٹ تھے‘ یہ بطور سیکرٹری میاں شہباز شریف کے ساتھ بھی کام کرتے رہے اور میاں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے لہٰذا شریف برادرز جانتے ہیں جب کسی افسر پرکرپشن کا اندھا دھند الزام لگایا جاتا ہے تو اس اور اس کے خاندان پر کیا گزرتی ہے؟ شریف فیملی خود بھی برسوں سے کرپشن کے جھوٹے مقدمے بھگت رہی ہے لہٰذا یہ لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں جب لوگ مے فیئر اپارٹمنٹس کے نیچے کھڑے ہو کر ’’مریم کے پاپا چور ہیں‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں یا خاندان کے افراد کو میڈیا میں چور چور یا ڈاکو ڈاکو کہا جاتا ہے یا عدالتیں اقامہ کی بنیاد پر سزائیں دیتی ہیں یا جج تین بار کے وزیراعظم کو سسلین مافیا کہتے ہیں تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے لیکن آپ المیہ دیکھیے‘درجن مرتبہ اس تکلیف سے گزرنے والے میاں شہباز شریف نے 26 اپریل کو بیک جنبش قلم ایف بی آر کے 25 اعلیٰ افسروں کو سرعام کرپٹ اور نااہل ڈکلیئر کر دیا‘ سرکاری ملازم پوری زندگی کھڈے لائین لگتے رہتے ہیں‘
سرکاری افسروں کے لیے یہ کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہوتا لیکن ان 25 ملازمین جن میں 22 ویں اور21 ویں گریڈ کے افسر شامل ہیں انہیں میڈیا میں باقاعدہ بے عزت بھی کیا گیا‘ وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا ان افسروں کو کرپشن کی بنیاد پر عہدے سے ہٹاکر ایڈمن پول میں ڈالا جا رہا ہے‘ یہ سیدھا سادا ظلم اور زیادتی ہے‘ سرکاری ملازمت میں 22 واں گریڈ آخری گریڈ ہوتا ہے اور اس کے بعد افسر ریٹائر ہوجاتے ہیں اور کوئی افسر اپنے سینے پر کرپشن اور نااہلی کا تمغہ سجا کر ریٹائر نہیں ہونا چاہتا چناں چہ یہ زیادتی ہے‘ وزیراعظم جانتے ہیں گریڈ 17 سے 22 ویں گریڈ تک ملازمین کی باقاعدہ اے سی آرز تیار ہوتی ہیں اور افسر ایجنسیوں سے بھی فلٹر ہوتے ہیں جب کہ گریڈ 21 سے 22 ویں میں صرف وزیراعظم ترقی دیتے ہیں اور اس سے پہلے تین خفیہ ادارے افسر کے بارے میں باقاعدہ رپورٹ کرتے ہیں‘ وزیراعظم کے اس نامناسب حکم کا نشانہ بننے والے افسروں میں 22 ویں گریڈ کے افسر بھی شامل ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہوا وزیراعظم اور سسٹم کرپٹ اور نااہل لوگوں کو پروموٹ کرتا رہا اور اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ذمہ دار کون ہے؟ کیا ان کرپٹ لوگوں کو پروموٹ کرنے والے وزیراعظم کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ اس سے نہیں پوچھنا چاہیے آپ نے نااہل اور کرپٹ افسروں کو 22 واں گریڈ دے کر قوم کے ساتھ زیادتی کیوں کی؟ کیا ایجنسیوں سے بھی یہ نہیں پوچھنا چاہیے انہوں نے کرپشن اور نااہلی کے باوجود ان افسروں کی پروموشن کی سفارش کیوں کی اور کیا ان تمام سینئر افسروں اور بورڈ سے بھی نہیں پوچھنا چاہیے جو انہیں مسلسل 30 سال پروموٹ کرتے رہے؟ آپ اسے بھی سائیڈ پر رکھ دیجیے‘
وزیراعظم کے حکم کی زد میں آنے والے افسروں میں اشفاق قریشی بھی شامل ہیں‘ میاں شہباز شریف کی 16 ماہ کی اپنی حکومت نے ان کی شان دار کارکردگی پر انہیں ستارہ امتیاز دیا‘ ان کا نام 14 اگست 2023ء کو انائونس ہوا تھا اور اس کی منظوری میاں شہباز شریف نے دی تھی‘ اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا یہ سمجھا جائے دنیا میں دو شہباز شریف ہیں‘ ایک شہباز شریف اشفاق قریشی کو ستارہ امتیاز کے لائق سمجھتا ہے جب کہ دوسرے کی نظر میں یہ کرپٹ اور نااہل ہیں‘ آپ اشفاق قریشی کے علاوہ باقی تمام افسروں کے پروفائل بھی دیکھ لیں‘ احمد مجتبیٰ میمن 22 ویں گریڈ میں ہیں‘ یہ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں اور یہ 12 سال سے فیلڈ میں نہیں ہیں‘ یہ وزارتوں میں ہیں اور حکومتیں ان سے بے شمار اہم کام لیتی رہی ہیں‘
سوال یہ ہے جو شخص 12 سال فیلڈ پوسٹنگ میں نہیں رہا‘ اس نے کرپشن کیسے کی؟ احمد رئوف بھی 5 سال سے کھڈے لائین ہیںلیکن اس کے باوجود ان کے سینے پر بھی کرپشن کا تمغہ لگ گیا‘ شاہ بانو 2015ء سے فیلڈ پوسٹنگ پر نہیں ہیں‘ سسٹم نے انہیں 9 سال سائیڈ پر رکھا‘ مکرم جاہ انصاری بھی 22 ویں گریڈ کے افسر ہیں‘ یہ بھی مدت سے سائیڈ لائین ہیں جب کہ ڈاکٹر فرید اقبال قریشی ممبر کسٹمز آپریشن رہے اور انہوں نے کرپشن کے درجنوں کیسوں کی انکوائری کی اور درجنوں افسروں کو سزائیں دیں اور حکومت ان کی کارکردگی کو سراہتی رہی مگر اچانک یہ بھی کرپٹ اور نااہل ثابت ہو گئے‘ میری اطلاعات کے مطابق حکومت عن قریب ایف بی آر کے مزید 50 افسروں کی فہرست جاری کر رہی ہے‘ اس میں بھی 21 ویں اور 22 ویں گریڈ کے افسر شامل ہوں گے اور اس کے بعد پولیس اور دوسرے محکموں کی فہرستیں بھی نکلیں گی مگر سوال یہ ہے کیا حکومت کسی انکوائری کے بغیر افسروں کو اس طرح سرعام بے عزت کر سکتی ہے؟اگر ہاں تو یہ اختیار وزیراعظم کو کس نے دیا؟۔
میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا پاکستان کی بیوروکریسی آئیڈیل یا معصوم ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں ملک کی موجودہ صورت حال کی سب سے بڑی ذمہ دار بیوروکریسی ہے‘ یہ اگر کرپٹ حکومتوں اور آئین شکن آمروں کی آلہ کار نہ بنتی اور اس نے اگر کام روکنے کی بجائے کام کیے ہوتے تو ملک آج یہاں نہ ہوتا لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں آپ کسی دن اٹھیں اور تحقیق کے بغیر 21 اور 22 ویں گریڈ کے افسروں کا خوف ناک میڈیا ٹرائل شروع کر دیں‘ آپ ریٹائرمنٹ سے پہلے انہیں خاندان اور عوام میں ذلیل کر دیں‘حکومت کو چاہیے یہ کمیشن بنائے‘ تحقیق کرے اور اس کے بعد پورے ثبوتوں کے ساتھ ذمہ داروں کو نوکریوں سے فارغ کر دے اور ساتھ ہی ان افسروں اور حکومتوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرائے جو کرپٹ اور نااہل افسروں کو پروموٹ کرتی رہیں‘ یہ کتنی زیادتی ہے آپ ایک طرف انہیں میڈل دے رہے ہیں‘ ان کے لیے تالیاں بجارہے ہیں اور دوسری طرف انہیں سرعام ذلیل کر رہے ہیں‘
یہ اگر واقعی ذمہ دار ہیں تو پھر آپ انہیں مکمل طور پر فارغ کریں‘ ان سے ان کی مراعات اور پنشن تک واپس لیں‘آپ انہیں ایڈمن پول میں ڈال کر قوم کا مزید سرمایہ اور وقت کیوں ضائع کررہے ہیں؟ دوسرا یہ کارنامہ کون سرانجام دے رہا ہے؟ وہ حکومت جسے فارم 47 کی گورنمنٹ کہا جاتا ہے‘ جسے اس کے اتحادی بھی اصلی نہیں مانتے‘ جسے اس کی اپنی پارٹی جائز تسلیم نہیں کر رہی‘ جو لوگ خود کرپشن کے الزامات سے بچنے اور جیلوں سے نکلنے کے لیے حکومت میں آئے تھے اور جنہیں تاریخ کا سب سے بڑا یوٹرن بھی کہا جاتا ہے‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے آج سے دو سال پہلے جب شہزاد اکبر ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر شریف فیملی کی فائلیں کھولتے تھے تو یہی عطاء تارڑ تڑپ کر کہتے تھے ’’ہمارا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے‘ ان کے پاس کیا ثبوت ہے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ لیکن آج یہ خود بھی وہی کام کر رہے ہیں‘یہ دو درجن بیوروکریٹس کو ذلیل کر رہے ہیں اور ان کے خلاف ثبوت تک نہیں دے رہے‘ کیا یہ کھلا تضاد نہیں اور آپ اس تضاد کا پہلا مظاہرہ دیکھ لیجیے‘ ایف بی آر میں اپریل میں 157 ارب روپے کم ٹیکس جمع ہوا اور یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو مجھے خطرہ ہے کہیں بیوروکریٹس کام ہی بند نہ کر دیں اور اگر ایسا ہو گیا تو حکومت کی کیا عزت رہ جائے گی۔