چین کی مصنوعی ذہانت سے طاقت کے توازن کو ’خطرہ‘

29  ‬‮نومبر‬‮  2017

اسلام آباد(ویب ڈیسک)ایک امریکی تھنک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے چین مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے میدان میں ترقی کر رہا ہے، دنیا کا اقتصادی اور عسکری توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔رپورٹ میں مثالیں دی گئی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کیسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔یاد رہے کہ جولائی میں چین نے مصنوعی ذہانت کے قومی منصوبے کا اعلان کیا تھا

جس میں کہا گیا تھا کہ چین اس میدان میں امریکہ سے پیچھے نہیں رہے گا۔ یہ بھی پڑھیے’قاتل روبوٹس’ کی تیاری پر پابندی کا مطالبہ تاہم ایک ماہر کا کہنا ہے کہ یہ تنبیہ صرف بلند بانگ دعوے ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ شائع کرنے والے ادارے سینٹر آف نیو امیریکن سکیورٹی کا کہنا ہے کہ ’چین اب امریکہ کے مقابلے میں تکنیکی پستی کا شکار نہیں ہے اور وہ صرف برابری ہی نہیں کر سکتا، بلکہ امریکہ سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔‘رپورٹ کے مطابق ’چینی فوج مصنوعی ذہانت سے متعلق منصوبوں میں شد و مد سے سرمایہ کاری کر رہی ہے اور ان کے تحقیقی ادارے چینی دفاعی صنعت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔‘اس میں مزید کہا گیا ہے کہ چینی فوج کو توقع ہے کہ مصنوعی بنیادی طور پر جنگی سیاق و سباق مکمل طور پر تبدیل کر دے گی۔رپورٹ کی مصنف ایلسا کانیا کا کہنا ہے کہ بعض ماہرین میدانِ جنگ میں ‘وحدت’ (singularity) کے منتظر ہیں، جب انسان لڑائی کے دوران روبوٹوں کے برق رفتاری سے فیصلے کرنے کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون کی پالیسی ہے کہ جنگ میں انسانوں کی بجائے روبوٹ استعمال کیے جائیں، تاہم دوسری جانب اقوامِ متحدہ خودمختار ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی پر غور کر رہی ہے۔ایلسا کانیا نے لکھا ہے کہ ‘چینی فوج مصنوعی ذہانت کو منفرد اور غیرمتوقع طریقوں سے استعمال کر سکتی ہے، جن پر امریکہ کی مانند قانونی اور اخلاقی قدغنیں عائد نہیں

ہوتیں۔‘پروفیسر نوئل شارکی ’قاتل روبوٹوں پر پابندی کی مہم‘ نامی تنظیم کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ چینی حکام نے انھیں بتایا ہے کہ ان کا اس قسم کے روبوٹ تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔انھوں نے کہا: ‘انھیں مغرب جو کر رہا ہے اس کے بارے میں چینیوں کو زیادہ تشویش ہے اس لیے یہ خالی خولی دھمکی ہو سکتی ہے۔’تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ چین اس میدان میں پانچ برسوں کے اندر اندر مغرب کے ہم پلہ ہو جائے گا۔

‘بائیدو، علی بابا اور ٹین سینٹ جیسی کمپنیوں کے مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں بہت سے چینی طلبہ دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ بائیدو کے پاس مصنوعی ذہانت کے 60 مختلف پلیٹ فارم ہیں اور اس نے مغربی مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔’گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ کے چیئرمین ایرک شمٹ نے بھی چین کی جانب سے لاحق مصنوعی ذہانت کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔

حال ہی میں انھوں نے واشنگٹن ڈی سی میں کہا: ‘میں سمجھتا ہوں کہ ہماری برتری اگلے پانچ برس تک قائم رہی گی، پھر چین ہمیں آ لے گا۔’خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پینٹاگون کی ایک دستاویز میں خبردار کیا گیا ہے کہ چینی کمپنیاں ایسی امریکی کمپنیوں کے حصص خرید رہی ہیں جن کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جسے ممکنہ طور پر فوجی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

موضوعات:



کالم



آئوٹ آف دی باکس


کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…