ملک اشرف(مانیٹرنگ ڈیسک /این این آئی )ڈی سی لاہور کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پیشی، نامناسب لباس پر عدالت کی برہمی، جسٹس منظور احمد ملک نے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے آپ کہاں کھڑے ہیں؟ رات کو جیسے سوئے صبح اٹھ کے اسی لباس میں عدالت آگئے۔ کل کو کوئی بنیان پہن کر عدالت آجائے گا۔نجی ٹی وی فورٹی ٹو کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں بغیر ہیلمٹ موٹر
سائیکل سواروں کو پیٹرول کی عدم فراہمی کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ ڈی سی لاہور نیلے رنگ کی شلوار قمیض، میرون کوٹ اور پشاوری چپل پہن کر پیش ہوئے۔ جسٹس منظور احمد ملک نے ڈی سی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نامناسب لباس میں عدالت آگئے ہیں آپ کو معلوم نہیں کہاں کھڑے ہیں۔ صبح اٹھے اور اسی لباس میں سپریم کورٹ پیش ہوگئے۔ ڈی سی نے جواب دیا کہ ان کے پاس یہی سوٹ ہے۔ عدالت نے ڈی سی کے جواب پر سخت ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ میں کامن سینس نہیں کہ کس طرح عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ آپ جیسے آفیسر کو تو اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔ ڈی سی مدثر ریاض نے اپنے رویے پر عدالت سے غیرمشروط معافی مانگ لی۔ دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے کھوکھر پیلس مسمار کرنے کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست نمٹا تے ہوئے عدالت نے حکم امتناعی تک کارروائی سے روکتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو فوری طور پر کھوکھر پیلس خالی کرنے کا حکم دیدیا ، عدالت نے سیٹلمنٹ کے لیے فریقین کو سول عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سول کورٹ کے حتمی فیصلے تک حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو درخواست گزارے کے سول معاملے میں مداخلت سے روک دیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے سیف الملوک کھوکھر کی درخواست پر سماعت کی ۔دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آصف عزیز بھٹی نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ درخواست گزار نے مجاز عدالت سے رجوع کرنے کی بجائے براہ راست لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ۔درخواست گزار حقائق چھپا کر یہاں آیا ۔چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ مسماری کا حکم کس نے دیا؟۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ 18 جنوری کے عدالتی حکم پر کارروائی کی گئی، ڈی سی نے 23 جنوری کو
حکم دیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کس تاریخ کو مسماری کی گئی جواب میں سرکاری وکیل نے بتایا کہ24 جنوری کو مسماری کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس حکم میں تو ڈی سی نے غیرقانونی قبضہ لینے کا حکم دیا، نوٹس کے بغیر کس قانون کے تحت کھوکھر ہائوس کو مسمار کیا گیا۔ چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ بادی النظر میں لگتا ہے کہ درخواست گزار کے پیلس کو
ایل ڈی اے قوانین کی خلاف ورزی پر مسمار کیا گیا،پورے موضع کی اشتمال نہ ہو تو کیا انفرادی طور پر ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تگڑے بندے کا کوئی ہمسایہ بھی نہ ہو، اور کچھ مانگے نہ مانگے زمین تو مانگ لے گا۔ چیف جسٹس محمد قاسم خان کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہ بلند ہوا ۔سرکاری وکیل نے کہاکہ کسی قبضہ پر مسماری کا اختیار کس کے پاس ہے،قانون کیا کہتا ہے
اس حوالے سے درخواست گزار کو مسماری سے قبل نوٹس دیا گیا اور ان کے گھر کے باہر نوٹس چسپاں کر دیا گیا تھا ۔چیف جسٹس نے کہاکہ اربن ایریا میں قبضے ہوتے ہیں تو اس کے خلا قانون موجود ہے کہ کس طرع کارروائی ہونا ہے ۔سرکاری وکیل نے کہا کہ پنجاب سول ایڈمنسٹریشن ایکٹ کے تحت کارروائی کا اختیار ڈپٹی کمشنر کے پاس ہے ۔،اس قانون کے تحت ڈی سی اپنے اختیارات کسی دوسرے
افسر کو تقوض کر سکتا ہے ،نوٹس میں تین روز کا وقت دیا گیا پھر گرانے کی کارروائی ہوئی،درخواست گزارسمیت134 لوگوں کو مسماری کے نوٹس دئیے گئے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ساری باتیں مجھے میڈیا کے ذریعے معلوم ہوئیں کہ کھوکھر پیلس کو قوانین کی خلاف ورزی پرمسمار کیا گیا ۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جس پیلس کو گرایا گیا اسکے لئے کوئی نوٹس نہیںدیا گیا ۔
دوران سماعت کہا گیا کہ جس حکم کے تحت کھوکھر پیلس مسمار کیا گیا اس کو سول کورٹ نے معطل کر دیا تھا ایسے میں انتظامیہ کی تمام کاروائی غیر قانونی ہوگئی تھی ۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر سول جج کوئی حکم جاری کر دیتا ہے تو اس کو تحفظ دینا ہماری ذمہ داری ہے ۔ایسی کون سی قیامت آ گئی تھی کہ سول کورٹ سے حکم امتناعی کے باوجود کھوکھر پیلس گرا دیا گیا۔سرکاری وکیل نے کہا کہ
ضابطہ دیوانی قانون کے تحت درخواست گزارکو سول کورٹ سے رجوع کرنا چاہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ تگڑے بندے کو کون زمین فروخت کرنے سے انکار کر سکتا ہے ۔سرکاری وکیل نے کہا کہ قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ڈی سی لاہور نے مسماری کا حکم دیا ۔24 جنوری 2021 کو کھوکھر پیلس مسمار کر دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 23 جنوری کو ڈی سی لاہور نے اے سی کو حکم دیا پھر درخواست گزار کو وقت دئیے بغیر اگلے روز پیلس مسمار کر دیا گیا ،کیا پیلس مسمار کرنے سے
قبل درخواست کو نوٹس دیا گیا اور قانون تقاضے پورے کیے گئے ۔سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ درخواست گزارکو یہاں آنے کی بجائے فیڈرل لینڈ کمشنر سے رجوع کرنا چاہیے ۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کھوکھر پیلس 13کنال پر محیط ہے ۔درخواست گزار کوسیاسی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔عدالت کے حکم امتناعی کے باوجود کھوکھر پیلس گرا دیا گیا ہے ۔سپریم کورٹ کے حکم پر اعلی سطح کی انکوائری کمیٹی نے اپنی انکوائری میں اراضی کا مالک قرار دیا ۔