سانحہ ساہیوال، ایس ایس پی جواد قمر کو گولی چلانے کے حکم سے بری الذمہ قرار ،ذیشان کے گھر والوں کو کس بات کا علم تھا؟ جے آئی ٹی رپورٹ نے کئی سوالات کھڑے کر دیے

20  مارچ‬‮  2019

لاہور ( این این آئی) سانحہ ساہیوال پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جی آئی ٹی) کی رپورٹ نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ،رپورٹ میں ایس ایس پی جواد قمر کو گولی چلانے کے حکم سے بری الزمہ قرار دیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ میں نشاندہی نہیں کی گئی کہ گولی چلانے کا حکم درحقیقت کس نے دیا۔ رپورٹ کے مطابق ذیشان کی کار کا پیچھا ایس ایس پی جواد قمر کررہے تھے

لیکن ایس ایس پی جواد قمر 35 منٹ بعد سانحہ کی جگہ پہنچے۔رپورٹ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایس ایس پی کار کا پیچھا کررہے تھے تو 35 منٹ لیٹ کیوں پہنچے؟۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈرائیور ذیشان کا دہشت گردوں اور افغانستان میں بھی رابطہ تھا جب کہ اس کی والدہ، بھائی اور بیوی کو مشکوک سرگرمیوں کاعلم تھا۔رپورٹ کے مطابق ذیشان کے اہلخانہ کو مشکوک لوگوں کو گھر میں پناہ دینے کا بھی علم تھا جبکہ اس کے کانسٹیبل بھائی کا کردار بھی مشکوک ہے۔جے آئی ٹی ٹیم نے ڈولفن فورس کے کانسٹیبل احتشام کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کمیشن کی تشکیل کی حد تک دائر تمام درخواستیں خارج کردی ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمدشمیم خان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔عدالت نے جوڈیشل انکوائری کرانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ جوڈیشل مجسٹریٹ کے حوالے کی ہے۔ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ میں چالان جمع کرائے جانے پر5 درخواستیں غیر موثر قرار دے کر نمٹادی ہیں۔عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا اختیار صوبائی اور

وفاقی حکومت کے پاس ہے۔یاد رہے کہ مقتول خلیل کے بھائی جلیل اور مقتول ذیشان کی والدہ حمیدہ بی بی سمیت دیگرنے درخواستیں دائر کیں تھی جس میں جے آئی ٹی کالعدم قرار دینے اور جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی تھی۔اس سے قبل 14 فروری کو لاہور ہائیکورٹ سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دے چکی ہے۔ خیال رہے کہ رواں سال 19 جنوری کو پولیس کے

محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ایک عام شہری خلیل، اس کی اہلیہ اور 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعوی ٰکیا گیا۔واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا

گیا تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا، دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جس کی ابتدائی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔



کالم



ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟


عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…