فواد چوہدری بھی غلط، چیف جسٹس بھی غلط اورآئی جی بھی غلط، اگر پروگرام ڈائریکٹر کے پاس کسی کو لگانے یا نکالنے کا اختیار نہیں تو وہ پروگرام نہیں چلا سکتا ایسے ہی وزیراعظم۔۔ اوریا مقبول جان کی چیف جسٹس پر کڑی تنقید

31  اکتوبر‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نجی ٹی وی پروگرا م میں گفتگو کرتے ہوئے سابق بیوروکریٹ و تجزیہ کار اوریا مقبول جان کا آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس میں کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس میں تینو ں پارٹیاں غلط ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تینوں فریق غلط سائیڈ پر کھڑےہوتے ہیں۔ فواد چوہدری بھی غلط ہیں، چیف جسٹس صاحب بھی غلط ہیں اور آئی جی اسلام آباد بھی غلط ہے۔

بنیادی طور پر پاکستان کا نظام پارلیمانی ہے ، پارلیمانی نظام کے اندر پارلیمنٹ عوام کو جوابدہ ہے، وزیراعظم بھی عوام کو جوابدہ ہے جبکہ آئی جی عوام کواس طرح جوابدہ نہیں ہے، کل اگر لاہور کے اندر پچاس ہزار ڈکیتیاں ہو جاتی ہیں ، جواب تو آئی جی نہیں دیگا، کٹہرے میں چیف منسٹر کھڑا ہو گا۔ اس کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی ٹیم چنے۔ اس موقع پر اوریا مقبول جان نے انیتا تراب کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم جب سول سروس میں تھے تو اس وقت انیتا تراب کیس آیا۔ انیتا تراب کیس میں کہا گیا تھا کہ اگر آپ کو کسی سول سرونٹ کو لگانا ہے تو ا س کیلئے ایک باقاعدہ نظام بنایا جانا چاہئے، ہمارے ہاں ایک خیال راسخ ہو گیا کہ سینئر ہے تو اہل بھی ہے ، ایسا بالکل نہیں ہے ، بیوروکریسی میں جاہلوں کی فصل در فصل بیٹھی ہوئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک جونیئر سے کام کر کے دے سکتا ہے تو پھر اس سے کام لیا جا سکتا ہے ، لیکن میں اس کے رائٹ آف پرموشن کو خراب نہیں کروں گااور نہ ہی میں اس کے رائٹ آف پے اور مراعات کو گریڈ کے لحاظ سے خراب نہیں کرنے کے حق میں نہیں۔ یہاں عمران خان اس لئے غلط ہے کہ آپ نے پورا نظام وہی رکھا ہوا ہے اور ڈیمانڈ آپ آئی جی سے ویسٹ منسٹر والی کررہے ہیں، سکاٹ لینڈ یارڈ کے چیف کو برطانوی وزیراعظم ایسے نہیں نکال سکتا، وہاں کی عوام وزیراعظم کا حشر کر دیگی، فواد چوہدری کس بیوروکریسی کی بات کر رہے ہیں،

کیا کوئی فرنچ یا جرمن وزیراعظم ایسے کسی کو کہہ سکتا ہے کہ تم نکل جائو، وہ ایسے نہیں کہہ سکتے، ان کو اس کی وجہ بتانا پڑیگی اور انتیا تراب کیس بھی یہی کہتا ہے کہ ان کو نکالنے کی ٹھوس وجہ بتانا ہو گی۔ دوسرا چیف جسٹس کا معاملہ ہے ، چیف جسٹس نے سندھ میں اے ڈی خواجہ کو بٹھا دیا، اب آپ چیف منسٹر سے نہیں پوچھ سکتے کہ کراچی میں بھتہ خوری کیوں ہو رہی ہے۔

وہ کہے گا کہ میں نے آئی جی کو بٹھایا ہے؟آپ پھر نہیں پوچھ سکتے کہ یہاں قتل کیوں ہو رہے ہیں۔ وہ کہیں گے چیف جسٹس سے پوچھو میں نے تو نہیں بٹھایا ہوا انہیں۔ ایسے انتظامیہ نہیں چلا کرتی، مسئلہ یہ ہے کہ بیوروکریٹس نے ایک گند کیا ہے کہ لوگوں کو دھکے مار مار کر عدالت کے دروازے پر بھیجا ہے۔ ایس ایچ او کے پاس کیس آتا ہے ، زمین قبضہ کی ہوئی ہوتی ہے کسی ایم پی اے ایم این اے نے ،

وہ کہتا ہے کہ بھائی میرے بس کی بات نہیں عدالت سے فیصلہ لے آئو، کسی کی پرموشن رکتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نہیں کر سکتا، وزیراعلیٰ ناراض ہو جائے گا، جائو جا کر عدالت میں لڑو اپنا کیس اور لے آئو فیصلہ۔ کسی پر غلط کیس بنا ہوا ہوتا ہے تو ایس ایچ او کہتا ہے کہ میں نہیں کرسکتا جا کر عدالت سے فیصلہ لے آئو، لوگوں کو آپ نے دھکے مار مار عدالت کے دروازے پر پہنچایا۔

دنیا میں کبھی ہوتا ہے ایسا، امریکہ کے اندر جو ڈسٹرکٹ اٹارنی ہے اس کے پاس اگر ایک کیس آجائے، جس میں وہ لکھ دے کہ اس کیس میں اتنی جان نہیں ہے کہ میں اس کو عدالت میں لے جائوں ، اس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہو سکتا۔ کیوں نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ اگر وہ غلط لکھتا ہے تو اس کو الٹا لٹکا دیتے ہیں، آپ کا انصاف ثاقب نثار نہیں کرتا ، ایس ایچ او کرتا ہے۔ انصاف تھانے میں ہوتا ہے،

سپریم کورٹ کا کام ہوتا ہے کہ جب انصاف کا قتل ہو اس وقت بیچ میں آئے، انصاف کی دکان پٹواری کے ہاں لگتی ہے، انصاف کی دکان ایس ایچ او کے ہاں لگتی ہے، ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ کے ہاں لگتی ہے، وہاں جو بے انصافی ہو معاملہ وہاں ختم ہوتا ہے۔ یہ جو گزشتہ 8دس سال سے تماشہ بن گیا ہوا ہے ۔ کنزیٰ تشدد کیس میں ایک ادارے کی ڈاکٹر اور اس کے شوہر گھریلو ملازمہ پر تشدد میں ملوث ہے

اور وہ ادارہ ان کی گرفتاری نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ ہم اس کی ادارہ جاتی تحقیقات کرینگے ، یہاں اس ڈاکٹر اور اس کے شوہر کو گرفتار ہونا چاہئے تھا اور یہ مس کیرج آف جسٹس ہے ،یہاں چیف جسٹس کو نوٹس لینا چاہئے تھا۔ بنیاد طور پر ایک فیشن بن گیا ہوا ہے کہ ایک آدمی ایک جگہ لگ جاتا ہے اور اس کے بعد اس کی پوسٹنگ بھی ہو جاتی ہے، وہ اگر کوئی ہیرا پھیر ی کرتا ہے تو اس کو ٹرانسفر کیا جاتا ہے

تو وہ جا کر ہائیکورٹ سے سٹے لے آتا ہے۔ یہاں پاکستان میں سٹے کا یہ حال ہے کہ میں ایک کیس کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس میں میں جج کا نام نہیں لوں گا۔ لاہور کا ایک بڑا مشہور کیس ہے ، پانچ سال اس کیس میں سٹے چلا تھا، ہر روز سٹے دیا جاتا تھا، لاہور میں ایک اوپیرا کا ٹھیکہ تھا جس میں ٹھیکے دار کو لاکھوں کی یومیہ آمدن ہوتی تھی، اور اس کیس میں عدالت ہر روز ایک نیا سٹے دیتی تھی،

ہم جب کہتے ہیں کہ عدالت جب گریبان سے پکڑتی ہے تو سب سے پہلے عدالت یہ دیکھے۔ عدالت نے گریبان سے پکڑنا ہے تو وزیراعظم کو پکڑے اور کہے کہ تم بیشک چار آئی جی بھی بدلو مگر تم عوام کے سامنے جوابدہ ہو، اسلام آباد پر امن ہونا چاہئے، آپ میڈیا میں کام کرتے ہیں اگر آپ کے ڈائریکٹر پروگرام کو ہائر اینڈ فائر کا اختیار نہ ہو تو کیا وہ پروگرام چلا سکتا ہے؟ یہاں سے پروڈیوسر

جا کر کہے کہ مجھے یہاں تین سال کیلئے رکھا گیا تھا، اب میں یہاں نہیں آتا، میں تو تین بجے سو کر اٹھتا ہوں ، جو کچھ مرضی کرو میں نہیں آتا، وہ ٹائم بھی پورا نہیں دیتا اور جا کر عدالت سے فیصلہ لیکر آجائے تو آپ یہی کہیں گے کہ میں نہیں چلاتا ٹی وی ، کوئی پرائیویٹ این ٹی ٹی یہ برداشت کر سکتی ہے ؟یونین کا لیڈر کام پر جاتا نہیں تھا ، اس کو نکالتے تھے وہ جا کر سٹے لیکر آجاتا تھا،

آپ نے پاکستان کے پورے نظام کو ٹھیک کرنا ہے یا خراب کرنا ہے؟میں تو ایک بیوروکریٹس کے بالکل حق میں نہیں ہوں، دوسری بات یہ کہ آئی جی کو خود کہہ دینا چاہئے کہ میں اب اس عہدے پر کام نہیں کر سکتا، اگر وزیراعظم میرے پر اعتماد نہیں کرتا تو میں یہاں نہیں رہنا چاہتا، دس اور لوگ ہیں۔ یہ سارے کے سارے بیوروکریٹس لائن میں لگے ہوتے ہیں، ہر کوئی کہتا ہے

کہ سر میں حاضر ہوں، ان بیوروکریٹس نے پاکستان کا ستیا ناس کیا ہوا ہے ، آپ ان کو ایسے مضبوط کرینگے تو آپ تباہ کر رہے ہیں پاکستان کو، یہ تو شیر ہو گئے ہیں، کل نیب کسی کو پکڑ کر لے کر آئیگی تو آپ کہیں گے خبردار اسے پکڑا، کیا پندرہ بیس دن میں سیاسی مداخلت ثابت ہو گئی۔ اے ڈی خواجہ کے کیس میں پیپلزپارٹی کی ہسٹری تھی ، ایک بندہ لگاتے تھے ، نکالتے تھے ، آئی جی اسلام آباد کے کیس میں ایسا نہیں ہے۔ میں عمران خان کا دفاع نہیں کر رہا مگر آج اگر عدالت میں کھڑے ہو کر سندھ کا چیف منسٹر کہہ دے کہ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو میں نے تو اے ڈی خواجہ کو نہیں لگایا تھا تو کیا کوئی جواب ہے عدالت کے پاس۔

موضوعات:



کالم



ضد کے شکار عمران خان


’’ہمارا خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے میں…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…