آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ یہ اس زمانے میں چند بزنس مینوں کو ساتھ لے کر جرمنی گئے تھے‘ میرے مرحوم دوست ڈاکٹر محمد اسلم بھی ان کے ساتھ تھے‘ ڈاکٹر اسلم پولٹری مصنوعات کے بزنس میں تھے‘ میاں صاحب نے دورے کے آخر میں جرمن بزنس مینوں سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی‘ وزیراعلیٰ سمیت پورا حکومتی وفد جرمن بزنس مینوں کے سامنے جھکا بیٹھا تھا‘
سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین جرمن بزنس مینوں کو مفت زمین سے لے کرسستی بجلی تک سب کچھ دینے کے لیے تیار تھے‘ ڈاکٹر اسلم کے ساتھ ایک جرمن بزنس مین بیٹھا تھا اور چیئرمین اسے اپنے ہاتھ سے کافی بنا کر دے رہا تھا‘ ڈاکٹر صاحب نے جرمن سے پوچھا ’’آپ کے پاس کتنے ملازم ہیں؟‘‘ یہ وہ سوال ہے جو ہر بزنس مین دوسرے بزنس مین کی ورتھ کا اندازہ لگانے کے لیے پوچھتا ہے‘ جرمن نے جواب دیا ’’اڑھائی سو‘‘ ڈاکٹر اسلم نے پوچھا ’’اور آپ کا سالانہ ریونیو کتنا ہوتا ہے؟‘‘ جرمن کا جواب تھا ’’سو ملین یوروز‘‘ ڈاکٹر اسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے‘ تھوڑی دیر بعد جرمن نے ان سے پوچھا ’’آپ کے پاس کتنے ملازم ہیں اور آپ کا ریونیو کتنا ہے؟‘‘ ڈاکٹر اسلم نے ہنس کر جواب دیا ’’میرے پاس چار ہزار ملازمین ہیں اور میرا ریونیو 800 ملین یوروز ہوتا ہے‘‘ یہ سن کر جرمن بزنس مین حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا اور پھر بولا ’’میری گورنمنٹ کو چاہیے یہ آپ کو جرمنی میں بزنس کی دعوت دیں کیوں کہ اس ہال میں موجود کسی جرمن بزنس مین کے پاس چار ہزار ملازمین نہیں ہیں‘‘ ڈکٹر اسلم نے واپسی پر جہاز میں یہ واقعہ وزیراعلیٰ کو سنایا اور اس کے بعد عرض کیا ’’میاں صاحب میں اتنی بڑی کمپنی چلا رہا ہوں‘ حکومت کو اربوں روپے ٹیکس بھی دے رہا ہوں لیکن مجھے آج تک چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ نہیں ملے‘ مجھے معمولی کاموں کے لیے بھی ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ذلیل ہونا پڑتا ہے اور میرے اوپر اس وقت بھی دو درجن مقدمے ہیں اور میں جیل سے بچنے کے لیے چھ بڑے وکیلوں کو ہر مہینے فیس دیتا ہوں‘
ریاست کے پاس میرے لیے وقت ہے اور نہ ہی عزت جب کہ دوسرے ملکوں کے چھوٹے چھوٹے بزنس مینوں کو ہم آدھا ملک دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ دوسرا میں جرمنی سے ’’مدر برڈ‘‘ امپورٹ کرتا ہوں‘ میں ان کا خریدار ہوں‘ میں جب جرمنی آتا ہوں تو پولٹری کی تیسری بڑی کمپنی کا منیجر مجھے ریسیو کرنے ائیرپورٹ آتا ہے جب کہ اس کمپنی کا نمائندہ حکومت کی دعوت کے باوجود آپ کی میٹنگ میں نہیں آیا‘حکومت کو اس سے کچھ نقطوں کا اندازہ کرنا چاہیے‘ مثلاً یورپی کمپنیاں کسی حکومت کی دعوت پر دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتیں یہ جب بھی کریں گی پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کریں گی‘دوسرا آپ پاکستانی بزنس مین کو عزت دیں‘ یہ پوری دنیا کو لاہور لے آئیں گے‘‘ ڈاکٹر اسلم کے دلائل منطقی اور پریکٹیکل تھے لہٰذا اس بحث کا وہی نتیجہ نکلا جو عموماً نکلا کرتا ہے‘ میاں صاحب ڈاکٹر صاحب سے ہلکے سے ناراض ہو گئے۔
ہمیں غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاملے میں یہ بنیادی نقطہ سمجھنا ہو گا‘ ملکوں کی معیشت کو لوکل بزنس مین ڈویلپ کرتے ہیں اور یہ لوگ ہی دوسرے ملکوں کی کمپنیوں اور سرمائے کو ملک میں لے کر آتے ہیں مثلاً آپ بھارت کی مثال لے لیں‘ بھارت میں اس وقت 274ارب پتی ہیں‘ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ بھارتی ہیں‘ مکیش امبانی 116ارب ڈالر کا مالک ہے‘ یہ کون ہے؟ یہ بھی بھارتی بزنس مین ہے اور اس کی کمپنیوں میں یورپ اور امریکا کے درجنوں سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ نریندر مودی اگر ان امریکی سرمایہ کاروں کے گھٹنوں کو بھی ہاتھ لگا لیتا تو بھی یہ بھارت میں دو ڈالر سرمایہ کاری نہ کرتے جب کہ ان لوگوں نے مکیش امبانی کے بزنس میں اربوں ڈالر لگا رکھے ہیں‘ آپ چین کی مثال بھی لے لیں‘ کیا چین کو چین امریکی اور یورپی کمپنیوں نے بنایا؟ جی نہیں‘ چین چینی کمپنیوں اور بزنس مینوں کے ذریعے چین بنا اور یہ جب بن گیا تو پھر مغربی کمپنیوں نے چینی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی‘ آج ایپل کی 90 فیصد مصنوعات چین میں بن رہی ہیں اور اس کے لیے چینی حکومت نے ایک بار بھی ایپل کمپنی سے کوئی درخواست نہیں کی‘یہ بزنس ٹو بزنس ڈیل ہے‘ ہمیں یہ بنیادی نقطہ سمجھنا ہو گا‘
میں یہاں سید بابر علی اور اینگرو کمپنی کے ڈیری برینڈ اولپر کی مثال دوں گا‘ سید بابر علی پاکستان میں نیسلے کے مین شیئر ہولڈر ہیں‘ سوال یہ ہے اگر ہمارے وزیراعظم نیسلے کمپنی کے دفتر جا کر درخواست کرتے تو کیا نیسلے پاکستان میں سرمایہ کاری کرتی؟ جب کہ نیسلے نے سید بابر علی کی وجہ سے اپنا پانی کا برینڈ پاکستان سے سٹارٹ کیا تھا‘ پیور لائف پاکستان سے سٹارٹ ہوا تھا اور ان کا دنیا کا دودھ کا سب سے بڑا پلانٹ بھی پاکستان میں ہے‘ اسی طرح ہالینڈ کی ڈیری مصنوعات کی سب سے بڑی کمپنی فرائز لینڈ( Friesland) نے 2015ء میں اولپر میں پانچ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور اس میں حکومت کا کوئی کنٹری بیوشن نہیں تھا‘ اولپر ملک کی لیڈنگ کمپنی اینگرو کا برینڈ تھا لہٰذا فرائز لینڈ نے حسین دائود کے نام پر آنکھیں بند کر کے پانچ سو ملین ڈالر اس میں لگا دیے‘ ہم اس وقت بھی سعودی عرب اور یو اے ای سے امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں‘ 15 اپریل کوسعودی وزیر خارجہ کے ساتھ بزنس مینوں کا وفد پاکستان آیا‘ پوری حکومت سعودی بزنس مینوں کے سامنے جھکی ہوئی تھی‘
حکومت نے دورے سے ایک ہفتہ پہلے سارے کام بند کر دیے تھے اور یہ اب پورا سال یادداشت کے چار کاغذ لے کر پھرتی رہے گی اور اگر سعودی حکومت اور بزنس مینوں نے اپنا وعدہ پورا بھی کر دیا تو بھی اس سرمایہ کاری کی ویلیو کتنی ہے؟ پانچ ارب ڈالر جب کہ سپریم کورٹ نے اکیلے ملک ریاض کے بحریہ ٹائون کی ویلیو 5 ہزار ارب روپے لگائی تھی‘ یہ ہمارے ایف بی آر کی سالانہ آمدنی کا 70فیصد بنتا ہے یعنی آپ کمال دیکھیے‘ ہم پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کی منتیں کر رہے ہیں‘ ہم سرخ قالین بچھا کر ائیرپورٹ پر ان کا استقبال کرتے ہیں اور صدر سے لے کر آرمی چیف تک دروازے کھول کر ان کو ویلکم کہتے ہیں جب کہ ہمارا اپنا بزنس مین‘ ہمارا اپنا سرمایہ کار بیمار ہو کر دوبئی میں بیٹھا ہے‘ ہم سعودی بزنس مینوں کو دو فائیو سٹار ہوٹلز کے لیے اسلام آباد میں مفت زمین آفر کر رہے ہیں لیکن جس نے لاکھوں ایکٹر زمین آباد کر دی‘
جس نے ملک میں نئے شہر کھڑے کر دیے اور جس نے رئیل سٹیٹ کی پوری انڈسٹری ڈویلپ کر دی ہم برسوں سے اس ملک ریاض کو زمین پر لٹا کر جوتے مار رہے ہیں‘ ہم نے اس پر سو سے زیادہ مقدمے بنا رکھے ہیں۔
آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں اور صرف ایک سوال کا جواب تلاش کریں‘ ہمارے 20 بڑے بزنس مین خود اور ان کا خاندان کہاں رہ رہا ہے؟ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ تمام لوگ ملک ریاض کی طرح ملک سے باہر بیٹھے ہیں‘ یہ دوبئی‘ لندن اور نیویارک میں بیٹھ کر پاکستان میں کاروبار کر رہے ہیں‘ ان کا خاندان بھی پاکستان میں موجود نہیں ہے جب کہ آپ چین‘ بھارت‘ جاپان اور یو اے ای کے ٹاپ بزنس مینوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو یہ اور ان کے خاندان اپنے ملکوں میں ملیں گے‘ ٹاٹا‘ برلا اور امبانی فیملی بھی بھارت میں ہے اور یہ اپنے ملک میں رہ کر بزنس کر رہے ہیں اور پوری دنیا کے سرمایہ کار ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں جب کہ ہمارے بزنس مین خاندان سمیت باہر بیٹھے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم اپنے بزنس مینوں کو تحفظ اور عزت نہیں دیتے ‘ دوسرا باہر کی ریاستیں بزنس فرینڈلی ہیں جب کہ ہم من حیث القوم بزنس مخالف ہیںچناں چہ ہمارے بزنس مین‘ ان کے خاندان اور سرمایہ تینوں باہر چلے جاتے ہیں‘
حکومت اگر واقعی ملک میں سرمایہ کاری چاہتی ہے تو اسے چاہیے یہ پاکستان کے ٹاپ 20 بزنس مینوں کو راضی کرے‘ ان کی بات سنے‘ ان کے راستے کے کانٹے ہٹائے‘ یہ ملک ریاض سے بھی ملاقات کرے اور اس کے ساتھ سیٹلمنٹ کرے‘ اس شخص میں واقعی بڑا پوٹینشل ہے‘ پوری ریاست اسے 35 سال سے مار رہی ہے مگر یہ اس کے باوجود قائم ہے‘ آخر اس میں کوئی نہ کوئی کمال تو ہوگا‘ آپ اس کے اس کمال کا فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ آپ گوادر اس کے حوالے کر دیں‘ کراچی کے ساتھ گیارہ بارہ جزیرے ہیں‘ آپ یہ اسے دے دیں‘ آپ اسے اسلام آباد کا کوئی نیا سیکٹر دے دیں‘ اسے نیا مری ڈویلپ کرنے کی اجازت دے دیں‘ ملک میں دس فائیو سٹار ہوٹل بنانے کا ٹاسک دے دیں یا اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ہائوسنگ سکیم بنانے کا موقع دے دیں یا پھر اسے چھوٹے شہروں میں ہائوسنگ پراجیکٹس کا ٹارگٹ دے دیں‘ ملک ریاض ملک کا لائف سٹائل بھی بدل دے گا اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان لے آئے گا‘
آپ اس کے ساتھ بات تو کریں‘ اسے انگیج تو کریں لیکن مجھے یقین ہے ہم یہ نہیں کریں گے‘ ہم سرمایہ کاری کے لیے ملک‘ ملک پھرتے رہیں گے‘ بزنس مینوں کو دعوت دینے کے لیے کروڑوں ڈالر ضائع کردیں گے اور ہم مزید دو چار ’’ایس آئی ایف سی‘‘ بنا لیں گے لیکن ہم ملک ریاض جیسے اپنے لوگوں سے بات نہیں کریں گے کیوں کہ اس کے لیے ہمیں اپنی انا کا شملہ نیچے کرنا پڑے گا جس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں‘ ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم اپنے ابن طلال کو عبرت کی مثال بنا رہے ہیں اور سعودی ابن طلال کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں‘ ہمارے حسین دائود جان بچانے کے لیے دوبئی بیٹھے ہیں جب کہ ہم دوبئی کے سرمایہ کاروں کے لیے سرخ قالین بچھا کر ہاتھ میں گل دستہ اٹھا کر ائیرپورٹوں پر کھڑے ہیں اور ہم آج تک یہ اندازہ ہی نہیں کر سکے سرمایہ منتوں سے نہیں آتا‘ اس کے لیے ماحول چاہیے اور ماحول کی حالت یہ ہے ہمارے ٹاپ 20 سرمایہ کار ملک سے باہر بیٹھے ہیں۔