جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائشگاہ پر پر فائرنگ ’’اگر کسی کی عزت نہیں کر سکتے تو کسی کی بے عزتی بھی نہیں کرنی چاہیے ،کیا یہاں فرشتوں کی حکومت لانی ہے‘‘؟سعد رفیق معنی خیز تبصرہ

15  اپریل‬‮  2018

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائشگاہ پر فائرنگ کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا ،اس واقعہ کے ملزموں کو جلداز جلد پکڑ کر کارروائی ہونی چاہیے، ملک میں بہت تجربات ہوئے ہیں جس نے ملک کی بنیادوں کوکھوکھلا کیا ،انتخابات صاف ، شفاف اور بروقت ہونے چاہئیں ،

خواہش ، امید اور یہ کوشش ہے کہ انتخابات میں کسی بھی طرح کی انجینئرنگ نہ ہو ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گڑھی شاہو میں ریلوے کے درجہ سوئم اور چہارم کے ملازمین کیلئے نئے تعمیر کئے گئے فلیٹس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پر ریلوے کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردا ر ایاز صادق نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کے گھر پر فائرنگ کا واقعہ انہیں کام سے روکنے کیلئے ڈرانے ، دھمکانے یا پیغام دینے کیلئے سازش ہے ۔ہم منتظر رہیں گے کہ فائرنگ کے واقعہ کی تحقیقات ہوں اور یہ سامنے آئے کہ کسی نے کیوں یہ حرکت کی ۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات سر پر ہیں ، اس ملک میں بہت تجربات ہوئے ہیں ہم یہی چاہیں گے کہ انتخابات بروقت اور صاف او رشفاف ہوں ، اس ملک میں پہلے بھی انجیئرڈ انتخابات ہوتے رہے ہیں او رحکومتیں بنتی رہیں اور ان تجربات نے ملک کی بنیادوں کوکھوکھلا کیا ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں ، خواہش بھی ہے اور کوشش بھی کر رہے ہیں کہ انتخابات میں کسی طرح کی انجینئرنگ نہ ہو ۔ آج کل انتخابات کے حوالے سے بہت افواہیں اڑائی جارہی ہیں اور لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو اپنوں کے نہیں ہو سکے وہ دوسروں سے کیا وفاداری نبھائیں گے، جو آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں تاریخ میں ان کا نام بھی ختم ہو جاتا ہے اور تاریخ انہیں جن الفاظ سے یاد رکھتی ہے سب جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریلوے کے یہ حالات بھی تھے کہ اس کے پاس تنخواہیں اور پنشن دینے کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے ،میرے حلقے میں ریلوے کے علاقے شامل ہیں اس لئے مجھے ڈر ہوتا تھاکہ یکم تاریخ کو میرے دفتر میں لوگوں کی لائنیں لگ جائیں گی جو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے فون کرانے کے لئے آئیں گے۔ یہ صورتحال ہوتی تھی کہ پی ایس او کو چیک دیا جاتا تھا اور چیک باؤنس ہو جاتا تھا ، پی ایس او کی جانب سے چیک کلیئر نہ ہونے تک ایندھن فراہم نہیں کیا جا تا تھا۔

لیکن آج ریلو ے کی آمدن بڑھنے سے اس طرح کی کوئی شکایات سامنے نہیں آتی ۔ انہوں نے کہا کہ جو ریلوے 2013ء میں 18ارب روپے کماتا تھا آج وہ کیسے 50ارب روپے کما رہا ہے۔محکمہ ریلوے اپنے بجٹ سے اپنے پنشنرز کو 31ارب روپے کی پنشن دیتا ہے جس سے لگتا ہے کہ ریلوے نے اپنے اخراجات بڑھا لئے ہیں جبکہ باقی محکموں بلکہ فوج کی پنشن بھی حکومت ادا کرتی ہے ، حکومت کو ریلوے کے پنشنرز کی پنشن بھی دینی چاہیے ۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آپ نے کچھ کیا ہی نہیں اور ریلوے کی آمدن 50ارب روپے ہو گئی ۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ ریلوے کا کئی مرتبہ تو میں آڈٹ کر اچکا ہوں ، میں نے چیئرمین قائمہ کمیٹی ریلوے ہوتے ہوئے کئی مرتبہ آڈٹ کرایا اور اس اسمبلی میں بھی کئی مرتبہ آڈٹ ہو چکا ہے ،اب بھی آڈٹ کرا لیں اس میں سے کچھ نہیں نکلے گا ۔وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے تعمیر ہونے والے کوارٹر زکیلئے کوئی وزیر یا سی ای او سفارش نہیں کر سکے ،45 فلیٹس ان گھرانوں کو دئیے جائیں گے جو اورنج لائن ٹرین کی وجہ سے متاثر ہوئے ۔ یہ فلیٹس ریلوے کے اپنے محکمے ریل کاپ نے بنائے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ مجموعی طو رپر سات مقامات کراچی ، حیدر آباد، نارووال، بہاولپور، ننکانہ اور گوجرانوالہ میں یہ فلیٹس بنائے جارہے ہیں جن میں سے چا رمقامات پر 90فیصد کام مکمل ہو چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریلوے میں اسی رفتار سے مسلسل ڈیڑھ دھائی کام ہوگا تو ریلوے مکمل طو رپر بدل جائے گا کیونکہ یہاں 65سال کی تباہی ہے جو بہت بڑی تباہی ہے ۔ اقربا پروری ، لوٹ مار نے اس محکمے کا ککھ نہیں چھوڑا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر تحفظات ہیں

لیکن مجھے جیسے ہی ان کی بذریعہ ریل کار لاہور آمد کا معلوم ہوا تو میں نے سی ای او کو فون کر کے ان کے استقبال کے لئے جانے انہیں سکیورٹی اور پروٹوکول دینے کی ہدایت کی کیونکہ جب ہم کسی کی عزت نہیں کریں گے تو کوئی آپ کی بھی عزت نہیں کرے گا ۔کسی سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہر کسی کی اپنی عزت بھی ہوتی ہے اور اس کا خیال کرنا چاہیے ، جو شخص جتنا با اختیار ہوتا ہے اسے اتنا خیال کرنا چاہیے ایک وزیر کو رکن اسمبلی سے زیادہ اور وزیر اعظم کو وزیر سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے ،

اگر یہ اصول سیاستدانوں پرلازم ہوتا ہے تو یہ سبھی پر لازم ہوتا ہے ۔ کسی کو گھسیٹ کر ،تضحیک کر کے ،ٹانٹ کر کے ملک نہیں چلتے ،یہ کوئی بنانا ری پبلک نہیں،اگر کوئی وضاحت دیدے تو اس پر اعتماد کرلینا چاہیے ۔ میں بات کرنا چاہتا تھا لیکن صبح جو واقعہ ہوا ہے میں بات نہیں کر سکتا لیکن ہم بات کریں گے اور اپنے انداز اور اسلوب سے کرنے سے نہیں رکیں گے۔ گورا ہمیں بات کرنے سے نہیں روک سکا ،ایوب خان ، یحیٰ خان او رذوالفقار بھٹو جس نے میرے والد کی جان لی وہ ہمیں بات کرنے سے نہیں روک سکا۔

میں نے میاں نواز شریف کی جیل بھی کاٹی ہے اور محترمہ کی جیل بھی کاٹی ہے کیونکہ اگر ہم بات نہیں کریں گے تو سانس رک جائے گی اور اگر بات نہیں کر سکتے تو پھر مر جانا چاہیے ۔ انہوں نے جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائشگاہ پر فائرنگ کے واقعہ کو وحشیانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک دشمنی ہے ، یہ بے غیرتی ہے او راس کے ملزم پکڑے جائیں گے او رانجام کو پہنچیں گے۔ قوم سیاسی جماعیں عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہیں اور کسی کو ایسے فعل کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ کیا ہم اس ملک کو جنگل بنا دیں ۔

ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنی عدلیہ کی حفاظت کرے اور اس کے ساتھ کھڑی ہو ۔ انہوں نے کہا کہ آج جو وقت ہے وہ گزر جائے مشرف کے آٹھ سال پلک جھپکتے گزر گئے یہ بھی گزر جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دن اعلیٰ عدلیہ سے اظہار یکجہتی کا دن ہے او رہم پوری ایمانداری کے ساتھ اس واقعہ کی مذمت کرتے ہیں۔یہ اقدام کرنے والے وحشی اور سازشی ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز انہیں پکڑیں گی اور انہیں بے نقاب کریں گی ۔ یہ عدلیہ کو دبانے اور دھمکانے کی کوشش ہے اور کسی بھی مہذب ملک یا معاشرے میں یہ قابل قبول نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے پینتالیس روز باقی ہیں اور میں کافی حد تک مطمئن ہوں کیونکہ جو ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ساڑھے چا ر سال ہم نے بھرپور محنت کی ہے لیکن گزشتہ چھ ماہ سے ہمیں کام کرنے کا مزہ نہیں آیا ، ہم ایک ہاتھ سے اپنا دفاع اور ایک ہاتھ سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صاف ،شفاف اور بروقت انتخابات تمام سیاسی جماعتوں، عدلیہ ، افو اج پاکستان ، دانشورو ں اور میڈیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔حالات پر امن انتقال اقتدار کی طرف جانے چاہئیں اور عزت سے جائیں ۔

کھینچ کر ، گھسیٹ کر آنا جانا بند ہونا چاہیے اور ہم درست تبدیلی لائیں او ریہی مہذب او رترقی کرنے والے ملکوں کا طریقہ ہے اور باقی کوئی طریقہ کامیاب نہیں ہے ،دڑاڑیں بڑھنے سے خطرناک صورتحال ہو گی ۔ انتخابات کے لئے سازگار ماحول ہونا ضروری ہے ۔ کھینچا تانی ، جوڑ توڑ اور رگیدنے کا ماحول سے بعض اوقات بڑا نقصان ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ،ماضی میں اکثریت کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے سے یہ ملک ٹوٹ گیا ور آج ہم اس صورتحال کے متحمل نہیں ہو سکتے، بڑی مشکل سے چیزیں جڑی ہیں ۔

ووٹر ٹاک شوز سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب گزشتہ روز ان لوگوں نے بھی میرے ساتھ اظہا ریکجہتی کیا جو ہمارے حامی نہیں ۔ لوگ آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، کانوں سے سنتے اور دل سے فیصلہ کرتے ہیں ۔ہم نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے کامیاب کوششیں کی ہیں۔ موجودہ حکومت نے 10ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی سسٹم میں شامل کی ہے جبکہ اس دوران 7سے 8ہزار میگا واٹ کی طلب بڑھی ہے اگر ہم یہ بجلی سسٹم میں شامل نہ کرتے تو 17سے 18ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال ہوناتھا

اور چوبیس گھنٹوں میں سے صرف دو گھنٹے بجلی آنی تھی ۔ہمیں اڑنگے دئیے گئے ، الزام ، سازش ،دھاندلی سے لے کر ہمارے عقیدے اور ایمان پرحملے کئے گئے اگر ہمیں کا م کرنے دیا جاتا تو سو فیصد بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہوتی لیکن پاکستان کو غیر مستحکم کیا گیا ، عمران خان کو پتہ ہی نہیں کہ نواز شریف کو نکالنے کا خود انہیں نقصان ہو گیا ہے ۔عدالت جانے والے تینوں درخواست گزاروں کو نقصان ہوا لیکن انہیں اندازہ نہیں ہوا ۔ لڑائی کسی کی ، جھگڑا کسی اور کے درمیان او رچلا کہیں اور گیا ۔ ہم جھگڑنا نہیں چاہتے اور ایسا بھی نہیں کہ ہمیں جھگڑنا نہیں آتا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔

ہم ڈنڈا ، گنڈاسا نہیں اٹھائیں گے ہمیں کسی کو گالی نہیں دینی ،ہم مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور ووٹ کی حرمت کو ماننا پڑے گا ، آئین قانون کی حکمرانی کو ماننا پڑے گا تبھی پاکستان آگے بڑھے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کی عزت نہیں کر سکتے تو کسی کی بے عزتی بھی نہیں کرنی چاہیے ۔ ویسے پاکستان میں اس کام کیلئے سیاستدانوں کو رکھا ہوا ہے ، جس پارٹی کی حکومت آجائے اسے چور بناکر نکالو، پھر اوروں کو لے کر آؤ اور ان کے ساتھ بھی یہی کرو، کتنی بار ایسا کرنا ہے، کیا فرشتوں کی حکومت لانی ہے، یہاں فرشتوں کی نہیں انسانوں کی حکومت آنی ہے، عوام ہم اعتماد اور آپ عدم اعتماد کریں اور کہیں کہ ہم پر اعتماد کرو تو کام کیسے چلے گا، سیاست دان میں بڑا حوصلہ ہے مکے اور گھونسے کھا کر بھی مسکراتا ہے، باقی میں بھی یہ حوصلہ پیدا ہو تو ہمیں خوشی ہوگی۔

موضوعات:



کالم



ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟


عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…