اہم صوبے میں کورٹ میرج کے رجحان میں بڑااضافہ، روزانہ کتنی شادیاں ہورہی ہیں؟ناقابل یقین انکشاف

14  اگست‬‮  2017

لاڑکانہ (آن لائن)کورٹ میرج کا رجحان، نکاح خوانوں اور وکلاء کی آمدنی میں اضافہ۔ آن لائن کی جانب سے کی گئے سروے کے مطابق ایک کہاوت ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔یقیننا ایسا ہی ہے۔ لیکن کچھ جوڑے زمین پر باقائدہ جوڑ کیلئے والدین کی مرضی و منشا کے برعکس کورٹس کی راہ بھی لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگرچہ کورٹ میرج کو اچھی نظر نے نہیں دیکھا جاتا ہے،

مگر اس کے باوجود کورٹ میرجز کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق لاڑکانہ سمیت سندھ کی تمام کورٹس میں روزانہ 50 سے60 جوڑے کورٹ میرج کیلئے رجوع کرتے ہیں۔ کورٹ میرج خواہشمندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی کے پیش نظر کچھ وکلاء نے خود کو ایسے کیسز کیلئے مختص کرلیا ہے۔ ایک عام وکیل پریمی جوڑے سے 20 سے25ہزار روپے بطور فیس وصول کرتا ہے۔استامپ وینڈرز ، نوٹری پبلک یا اوتھ کمشنرز وغیرہ کے ذریعے کورٹ میرج کے خواہشمند نوجوان کا کسی بھی وکیل سے رابطہ ہونا ممکن ہے۔ کورٹ میرج کے بڑھتے ہوئے کاروبار کو دیکھتے ہوئے نکاح خواہان ببھی اس کاروبار میں شامل ہوگئے ہیں۔ اکثر نکاح خواں منظور شدہ نکاح رجسٹرار بھی ہیں، مگر کچھ بغیر رجسٹریشن کے بھی کام کر رہے ہیں۔ عائلی قوانین مجرمہ 1962 ء ؁ کے تحت ہر نکاح کو رجسٹرکروانا ضروری ہے۔ کورٹ میرج ایک قانونی عمل ہے، اسکی شرعی حیثیت نہیں ہے، لہٰذا پریم51395 جوڑوں کوفوری طور پر نکاح پڑھوانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ مشورہ غلط بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کی آڑ میں پریمی جوڑے سے مزید رقم بتوری جاتی ہے۔ کورٹ میرج کرنے والا جوڑا چوں کہ حالات کے دباؤ میں گھِرا ہوتا ہے۔کورٹ میرج کا تصور بنیادی طور پر ایسے معاشروں سے تعلق رکھتا ہے،جن میں مذہب کی بنیاد پر کوئی خاندانی نظام موجود نہ ہو، اور وہ روایات، ضابطوں یا قوانین کے پابند ہوں۔

لیکن آج کل کے زمانے میں لڑکیاں اپنے حالات یا جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے معیار سے کم تر لڑکوں سے کورٹ میررج کرلیتی ہیں۔ معاشی اور معاشرتی طور پران کے ہم پلہ نہ ہونے کی وجہ سے آگیچل کر سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پھر دونوں فریق ایک دوسرے کے مزاج ، عادات و اطوار کو سمجھے بغیر جلد بازی میں فیصلہ کرتے ہیں، لہٰذا مزاج کا فرق آڑے آتا ہے۔

جس گھر کو محبت اور سکون ہونا چاہیے تھا وہ وحشت ناک بن جاتا ہے۔ زندگی گھریلو جھگروں ، الجھنوں اور ایک دوسرے سے شکوے شکایت کا عذاب جھیلتے جھیلتے گذر جاتی ہے؛ یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ یا معاملہ بالآخر طالق تک پنہچ جاتے ہیں۔ یہ بھی سمجھنا درست نہیں ہے کہ پسند یا محبت ہی کورٹ میرج کا سبب بنتی ہے، ہمارے مخصوص معاشرتی حالات اور کچھ لوگوں کی مجبوریاں ببھی انہیں کورٹ میرج کی طرف لے جاتی ہیں۔

کچھ سورتوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکایں اپنی ماؤں کے ساتھ کورٹ میرج کیلئے رجوع کرتی ہیں۔ کورٹ میرج بے شک دوافراد کی دو باہمی رجامندی کا نام ہے، لیکن ہمارے رسم ورواج معاشرتی اقدار میں مغربی طرز کی اس پیوندکاری کی گنجائش کہاں نکلتی ہے؟ بسا اوقات کورٹ میرج نہ صرف دو خاندانوں کے درمیان تنازع ، دشمنی، فساد، اور کڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے، بلکہ معاشرے میں بھی انتشار پیدا کرتی ہے۔ یاد رہے کہ لاڑکانہ کی عدالتوں میں خلح کے تقریبن 3000 سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں۔

موضوعات:



کالم



آئوٹ آف دی باکس


کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…