اس دنیا میں سب کچھ رہ سکتا ہے لیکن ایک چیز نہیں رہ سکتی اور وہ چیز ہے سپیس، اس دنیا میں جو بھی پوزیشن‘ جوبھی جگہ اور جو بھی سپیس پیدا ہو تی ہے وہ فوراً فِل ہو جاتی ہے، اس پر کوئی نہ کوئی ضرور آ کر بیٹھ جاتا ہے مثلاً آپ اپوزیشن کی سپیس کو لے لیجئے‘ وقت نے یہ سپیس پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دی تھی لیکن ن لیگ نے یہ سپیس فِل نہیں کی چنانچہ اب یہ سپیس بلاول بھٹو پُر کر رہے ہیں‘
میاں نواز شریف سے ملاقات اور آج کی پریس کانفرنس کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے سسٹم میں اب صرف دو ہی لوگ باقی ہیں‘ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر بلاول بھٹو، آپ دیکھ لیں اکانومی ہو تو کون بات کر رہا ہے‘ این آر او کا ایشوہو تو کون بات کر رہا ہے‘ نیشنل ایکشن پلان کی بات ہو‘ کالعدم تنظیموں کا ایشو ہو‘ انڈیا ‘افغانستان اور امریکا کی بات ہو‘ نئے میثاق جمہوریت کی بات ہو اور حد تو یہ ہے میاں نواز شریف کی صحت کی بات بھی ہو تو کون بول رہا ہے‘ بلاول بھٹو بول رہا ہے‘ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب ہوا ن لیگ ایک قدم اور پیچھے ہٹ گئی ہے اور اس نے عملاً اپوزیشن لیڈر کی کرسی بلاول بھٹوکو پیش کر دی ہے بس اعلان باقی ہے‘ اسلام آباد میں افواہیں گردش کر رہی ہیں میاں نواز شریف کو اس ماہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی مل جائے گی اوریہ مریم نواز صاحبہ کے ساتھ چار سال کیلئے باہر چلے جائیں گے اور میاں شہباز شریف اگر کوشش کریں تو یہ اپنی پرانی پوزیشن پر بحال ہو سکتے ہیں‘ بہرحال یہ ابھی صرف افواہیں ہیں‘ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے، بلاول بھٹو اپوزیشن لیڈر بن چکے ہیں‘ ہم آج کے ایشو کی طرف آتے ہیں، یہ تین وزراء کون ہیں اور کیا ان کا واقعی کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلق ہے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا اور معاشی محاذ پر چند اچھی خبریں سامنے آ رہی ہیں‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔