ایک تھا خاندان

9  فروری‬‮  2021

ایک خاندان تھا‘ وسائل سے مالا مال‘ زمین زرخیز‘ لوکیشن شان دار اور خاندان کے لوگ ذہین‘ بہادر اور ہنر مند‘ غرض قدرت نے خاندان کو ہر لحاظ سے نواز رکھا تھا‘ کوئی کمی‘ کوئی خامی نہیں تھی‘ ہمسائے اس خاندان سے جیلس تھے‘ یہ اسے ترقی یافتہ اور خوش حال نہیں دیکھنا چاہتے تھے‘ خاندان کی سربراہی دو بھائیوں کے پاس تھی‘ ایک بھائی خاندان کی حفاظت کا ذمہ دار تھا اور دوسرا خاندان کی پرورش کرتا تھا‘ وہ منیجر تھا‘ پہلا بھائی خاندان کی دیواریں مضبوط رکھتا تھا‘ گیٹ پر ڈیوٹی دیتا تھا

اور چھت پر پہرہ داری کرتا تھا جب کہ دوسرا بھائی خاندان کے لیے وسائل پیدا کرتا تھا‘ خاندان کے لوگوں سے کھیتی باڑی کراتا تھا‘ کارخانے لگواتا تھا‘ تجارت کراتا تھا‘ گھر کی نالیاں اور فرش پکے کراتا تھا‘ پانی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کا بندوبست کرتا تھا‘ بچوں کی تعلیم اور تربیت بھی اس کی ذمہ داری تھی اور خاندان کو خوراک‘ ادویات اور صاف ماحول دینا بھی اور اس کی عزت‘ آبرو اور امیج کا خیال رکھنا بھی‘ یہ دونوں بھائی متحد تھے‘ یہ دونوں ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے تھے اور اپنی اپنی ذمہ داری بھی احسن طریقے سے پوری کر تے تھے‘ ہمسایوں نے ان پر کئی مرتبہ حملے کیے مگر دونوں بھائیوں نے مل کر اپنے خاندان کی حفاظت کی اور یہ سرخ رو ہوئے‘ ہمسایوں نے ریسرچ کی تو پتا چلا ان کی اصل طاقت ان کا اتحاد ہے‘ یہ دونوں بھائی جب تک متحد ہیں اس وقت تک اس خاندان کو تباہ نہیں کیا جا سکے گا چناں چہ ہمسایوں نے اتحاد توڑنے کے لیے کئی پالیسیاں بنائیں‘ کئی سازشیں کیں لیکن یہ کام یاب نہ ہو سکے‘ آخر میں انہوں نے ایک دل چسپ چال چلی‘ انہوں نے خاندان کے چند لوگوں کو اکٹھا کیا اور انہیں یہ بتانا شروع کر دیا خاندان کی اصل طاقت تم ہو‘ تم مزدوری کرتے ہو‘ تم کھیتی باڑی کرتے ہو‘ کارخانے چلاتے ہو اور تجارت کرتے ہولیکن تمہاری ساری کمائی یہ دونوں بھائی کھا جاتے ہیں‘ تمہاری رقم سے ایک بھائی نئی رائفلیں خرید لیتا ہے اور دوسرا بھائی اپنے کمرے میں اے سی لگا لیتا ہے‘ اپنے بچوں اور بیوی کو مہنگے تحفے خرید کر دے دیتا ہے اور یہ اپنے لیے نئی نئی گاڑیاں لے لیتا ہے اور یہ تمہارے اور تمہارے بچوں کے ساتھ زیادتی ہے‘ تم آخر کب تک دونوں بھائیوں کی غلامی کرو گے چناں چہ بغاوت کرو اور آزاد ہو جائو‘ خاندان کے وہ لوگ ان کی باتوں میں آ گئے اور انہوں نے بٹوارے کا مطالبہ کر دیا‘ منیجر بھائی نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آئے جب کہ محافظ نے انہیں ڈرانے‘ دھمکانے اور دبانے کی کوشش کی لیکن یہ مزید ناراض ہو گئے یوں لڑائی شروع ہوگئی

اور اس کے نتیجے میں خاندان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ گھر کے اندر دیوار بنا دی گئی اور باہر دو دروازے لگ گئے جس کے بعد محافظ بھائی اور منیجر بھائی نے بچے کھچے خاندان کی ذمہ داری اٹھا لی‘خاندان چھوٹا ہو گیا لیکن یہ اس کے باوجود ابھی تک مضبوط تھا‘ اسے توڑنا اور فنا کرنا اب بھی ممکن نہیں تھا لہٰذا ہمسایوں نے سوچا ہمیں ان کے مزید ٹکڑے کرنا ہوں گے لیکن یہاں پر ایک مسئلہ پیدا ہو گیا‘ دونوں بھائی دشمن ہمسائے کی چال سمجھ چکے تھے‘ یہ جان گئے تھے دشمن ہمارے مزید

ٹکڑے کردے گا چناں چہ انہوں نے پنچایت میں دشمن کی شکایت کرنا شروع کر دی‘ یہ گائوں کے ہر چودھری کے پاس جاتے اور اسے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں بتاتے‘ یہ اسے یہ بھی بتاتے ہمارا دشمن ابھی تک باز نہیں آیا‘ یہ ہمیں مزید تباہ کرنا چاہتا ہے‘ پنچایت سمجھ دار تھی‘ وہ جانتی تھی یہ سچ کہہ رہے ہیں اور ان کے ہمسائے واقعی انہیں امن اور آشتی کے ساتھ زندگی نہیں گزارنے دے رہے‘ پنچایت نے بڑے دشمن ہمسائے کو ڈانٹنا شروع کر دیا‘ اس نے اسے صاف بتا دیا تم نے اگر مزید زیادتی کی

تو ہم تمہارا ساتھ نہیں دیں گے‘ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے‘ دشمن ہمسایہ ڈر گیا مگر وہ اس خاندان کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا چناں چہ اس نے اپنی حکمت عملی بدل لی۔نئی حکمت عملی کے تین پہلو تھے‘ اس نے خاندان کے الگ ہونے والے حصے کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا‘ یہ اسے ترقی دے کر باقی خاندان اور گائوں کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا یہ دونوں بھائی غلط ہیں‘ یہ اصل پرابلم ہیں‘ خاندان کا یہ حصہ جب تک ان بھائیوں کے زیر اثر تھا یہ کم زور‘ جاہل اور معاشی لحاظ سے

بدحال تھا لیکن یہ جوں ہی ان کے اثر سے نکلا یہ خوش حال بھی ہو گیا‘ تعلیم یافتہ بھی اور طاقتور بھی‘ دشمن ہمسائے کا خیال تھا اس مثال سے گائوں کے لوگ بھی دونوں بھائیوں کے خلاف ہو جائیں گے اور خاندان کے باقی لوگوں کو بھی محسوس ہو گا ہم بھی اگر خاندان کے آزاد حصے کی طرح خوش حال‘ تعلیم یافتہ اور مضبوط ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بھی الگ ہو جانا چاہیے‘ دشمن کی یہ تدبیر بڑی حد تک کام یاب ہو گئی‘ الگ ہونے والا گروپ خوش حال بھی ہو گیا‘ مضبوط بھی اور تعلیم یافتہ بھی

اور اسے دیکھ دیکھ کر خاندان کے باقی افراد کے اندر بھی الگ ہونے کی خواہش پنپنے لگی۔حکمت عملی کا دوسرا پہلو خاندان کے بارے میں نیگیٹو رپورٹنگ تھی‘ دشمن ہمسائے نے پورے گائوں میں خاندان کے بارے میں بری خبریں پھیلانا شروع کر دیں‘ گائوں میں کسی بھی جگہ چوری ہوتی تھی تو دشمن ہمسایہ اس خاندان کو چور ڈکلیئر کر دیتا تھا‘ یہ خود چوری کرا کر مال اس خاندان میں چھپا دیتا تھا اور پھر برآمدگی کرا دیتا تھا اور یوں یہ خاندان بدنام ہو جاتا تھا‘ ہمسائے نے خاندان کو پورے گائوں میں لڑاکا‘

جھگڑالو اور بدتمیز بھی مشہور کرنا شروع دیا‘ یہ خاندان کے لوگوں کو بے ہنر اور نالائق بھی ثابت کرنے لگا اور اس نے معاشی نقصان پہنچانے کے لیے منڈی میں اس کی اجناس اور مصنوعات کے مقابلے میں اپنا مال بھی سستا دینا شروع کر دیا‘ اس نے اس کی ساری منڈیاں بھی چھین لیں‘ اس کی نئی حکمت عملی کے دونوں پہلو جب کام یاب ہو گئے تو اس نے تیسری چال چل دی‘ اس نے دونوں بھائیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا شروع کر دیے‘ یہ اپنے ایجنٹوں اور گائوں میں موجود دوستوںکے ذریعے

محافظ اور منیجر دونوں بھائیوں کو تھپکی دینے لگا‘ یہ محافظ کو بتاتا تھا خاندان کے اصل وارث تم ہو‘ تم گولی بھی کھاتے ہو‘ زخم بھی لیتے ہو‘ دن اور رات جاگتے بھی ہو اور تم اپنے بچوں اور بیوی کا وقت بھی خاندان کو دے دیتے ہو لیکن اس کے بدلے میں تمہیں کیا ملتا ہے؟ گالیاں‘ طعنے اور نفرت‘ قربانی تم دو‘ خاندان کی حفاظت تم کرو اور گُل چھرے کرپٹ منیجر اڑائے‘ تم دیکھ نہیں رہے

اس نے کتنی جائیداد بنا لی‘ اس کے بچے شہر میں پل رہے ہیں‘ یہ اپنے گھوڑوں کو بھی مربے کھلاتا ہے‘ اس کے باتھ روم میں سونے کا کموڈ لگا ہے اوریہ جہازوں میں اڑتا پھرتا ہے جب کہ تمہارے لیے دوا اور خوراک کے پیسے بھی نہیں ہیں‘ اس نے منیجر کو بھی یہ بتانا شروع کر دیا خاندان کا اصل مسئلہ محافظ بھائی ہے‘ تم جو کماتے ہو تم اس پر لگا دیتے ہو‘ تم اگر میرے ساتھ صلح کر لو‘ ہم اگر میز پر بیٹھ جائیںتو محافظ اور حفاظت دونوں کی ضرورت نہیں رہے گی‘ تم یہ رقم خاندان پر لگا سکو گے‘

منیجر کو یہ بات بھلی لگتی ہے اور یہ اس کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے‘ دشمن ہمسایہ اس دوران محافظ کو بتاتا ہے منیجر کا اصل منصوبہ تم سے جان چھڑانا ہے‘ یہ تمہیں فارغ کر کے خاندان کے سارے وسائل ہڑپ کرنا چاہتا ہے‘ محافظ شک میں پڑ جاتا ہے اور منیجر کو مذاکرات سے روک دیتا ہے جس کے بعد دشمن ہمسایہ فوراً منیجر کو بتاتا ہے دیکھو میں نہ کہتا تھا تمہارا اصل مسئلہ ہم نہیں محافظ ہے‘ یہ جب تک موجود ہے تم ترقی نہیں کر سکو گے‘ تمہارے وسائل اسی طرح تباہ ہوتے رہیں گے‘

منیجر بھی شک کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ بھی محافظ سے الجھ پڑتا ہے‘ دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی ہے‘ دشمن ہمسایہ اس دوران خاندان کے لوگوں کو بتانا شروع کر دیتا ہے‘ یہ دونوں مفاد پرست ہیں‘ کماتے تم ہو اور کھا یہ دونوں جاتے ہیں‘ ان دونوں کو تمہاری کوئی پروا نہیں‘ یہ صرف اور صرف اپنے مفاد کے اسیر ہیں‘ یہ دونوں تمہیںلوٹ رہے ہیں یوں خاندان کے لوگ بھی منیجر اور محافظ دونوں کے خلاف ہو جاتے ہیں‘ دشمن ہمسایہ اس کے بعد گائوں کو بتاتا ہے دیکھیں ہم مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں‘

ہم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتے ہیں لیکن ہم کس کے ساتھ مذاکرات کریں ہم یہ نہیں جانتے‘ منیجر سے بات کرتے ہیں تو محافظ بات چیت کو سبوتاژ کر دیتا ہے‘ محافظ سے مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو منیجر مذاکرات کو ’’اون‘‘ نہیں کرتا‘ آپ پلیز فائنل اتھارٹی کا فیصلہ کرا دیں‘ گائوں بھی پریشان ہو جاتا ہے‘ پنچایت گائوں میں امن چاہتی ہے لیکن مرکز میں موجود ایک خاندان کے اندر بھی لڑائی چل رہی ہے اور یہ خاندان ہمسائے سے بھی لڑ رہا ہے اور اس کی وجہ سے چار پانچ مزید خاندانوں کے

اندر بھی جنگ شروع ہو چکی ہے‘ پنچایت اس سلسلے کو روکنا چاہتی ہے لیکن یہ مسئلہ رک نہیں رہا‘ یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔پنچایت اب تنگ آ چکی ہے اور یہ گائوں کے لوگوں سے پوچھ رہی ہے ’’ہمیں کیا کرنا چاہیے‘ہم اس مسئلے کو کیسے حل کریں‘‘ چند خاندانوں کا خیال ہے آپ اسے حال پر چھوڑ دیں یہ لوگ خود ہی لڑ لڑ کر مر جائیں گے‘ چند خاندان کہہ رہے ہیں آپ ان کا حقہ پانی بند کر دیں

شاید یہ لوگ معاشی مسائل‘ قحط‘ بے روزگاری اور بیماری سے ہی سنبھل جائیں‘ شاید یہ مسائل ان کی آنکھیں کھول دیں جب کہ چند خاندانوں کا خیال ہے خاندان کے پاس بارود کا ڈھیر ہے‘ ہم نے اگر اسے حال پر چھوڑ دیا اور کسی دن ان لوگوں نے بارود کو آگ لگا دی تو پورا گائوں اڑ جائے گاچناں چہ ہمیں اس خاندان کے مزید ٹکڑے کر دینے چاہییں‘ گھر کے اندر مزید تین چار دیواریں کھینچ دیں اور ان سے

بارود چھین لیں‘خاندان کا سائز کم ہو گا تو گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ لہٰذا یہ مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشین ریاستوں کی طرح اپنے اپنے مسئلوں میں الجھ کر بندے بن جائیں گے‘ آخری اطلاعات تک یہ تینوں آپشن میز پر موجود ہیں اور پنچایت کی ووٹنگ جاری ہے اور اس بار کا فیصلہ حتمی ہو گا لیکن خاندان اس خطرے سے نبٹنے کی بجائے مسلسل آپس میں لڑ رہا ہے اور یہ تازہ ترین صورت حال ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…