ہم اسلام کے قابل نہیں 

6  اکتوبر‬‮  2019

کرسٹینا‘ میری بڑی بیٹی‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے نام پہلا پیغام تھی‘ وہ پیدا ہوئی‘ وہ ٹرے میں پڑی تھی‘ میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور میں حیران رہ گیا‘ میری بیٹی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی‘ وہ دس ماہ کے بچے کی طرح اپنی ٹانگوں‘ اپنے پاؤں پر کھڑی تھی‘

میں میڈیکل ڈاکٹر تھا‘ دنیا کے شان دار ترین ہسپتال کا ڈائریکٹر تھا‘ میری پوری زندگی میڈیکل سائنس اور اینتھرو پالوجی میں گزری تھی‘ میں جانتا تھا انسان کا بچہ پیدا ہونے کے فوراً بعد اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ہم انسان آہستہ آہستہ کھڑا ہونا سیکھتے ہیں مگر میری بیٹی کرسٹینا پیدائش کے چند گھنٹے بعد ٹرے میں کھڑی تھی اور اپنی چمک دار آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی‘ میں نادان تھا‘ میں بے وقوف تھا‘ میں اللہ کے اس پیغام کو میڈیکل معجزہ سمجھا اور بھول گیا لیکن پھر میرے اللہ نے مجھے دوسری کال کی اور یہ کال بہت خوف ناک تھی‘ میں بے اختیار اس کے سامنے جھک گیا اور میرے اللہ نے مجھے اٹھا کر اپنے سامنے بٹھا لیا“۔یہ ڈاکٹر لارنس براؤن کی کہانی کا ایک حصہ تھا‘ دوسرا حصہ کیا تھا‘ ہم اس طرف جانے سے پہلے ڈاکٹر لارنس براؤن کے بارے میں جانیں گے‘ لارنس براؤن 1959ء میں سان فرانسسکو میں پیدا ہوئے‘ خاندان 1677ء سے امریکا میں تھا اور یہ لوگ جدی پشتی عیسائی تھے‘ لارنس براؤن خاندان سے مختلف تھے‘ یہ شروع ہی میں مذہب سے باغی ہو گئے‘ یہ ملحد بن گئے‘ دنیا کی دو بہترین یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں‘ کارنل یونیورسٹی سے آرٹس اینڈ سائنس میں گریجوایشن کی اور براؤن یونیورسٹی میڈیکل کالج سے میڈیسن میں ڈاکٹریٹ کی‘ یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دنیا کے بہترین ہسپتال جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہاسپٹل سے منسلک ہو گئے‘ یہ ائیرفورس میں بھی رہے اور یہ مشرق وسطیٰ میں میڈیکل ڈائریکٹر اور آنکھوں کے شعبے کے سربراہ بھی‘ یہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال میں کام کرتے تھے‘ ملحد تھے‘ کسی مذہب پر یقین نہیں کرتے تھے۔ سائنس اور تحقیق کو دنیا کا سب سے بڑا مذہب کہتے تھے اور یہ عام محفلوں میں کہا کرتے تھے

مذہب قصے‘ کہانیوں اور داستانوں کے سوا کچھ نہیں لیکن پھر ان کی زندگی میں دو حیران کن واقعات پیش آئے‘ پہلا واقعہ 1990ء کے شروع میں کرسٹینا کی پیدائش تھی‘ کرسٹینا جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہاسپٹل میں پیدا ہوئی‘ ڈاکٹر لارنس براؤن نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بچی اٹھ کر اپنی ٹانگوں‘ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی‘ میڈیکل سائنس کے پاس اس معجزے کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ڈاکٹروں نے اس واقعے کو مشکل سی ٹرم میں تبدیل کیا اور اسے کرسٹینا سینڈروم کا نام دے دیا‘ ڈاکٹر لارنس اس واقعے کے بعد بھی ملحد ہی رہے‘ یہ اپنے عقائد کا برملا پرچار بھی کرتے رہے‘

دوسرا واقعہ کرسٹینا کی پیدائش سے دس ماہ بعد پیش آیا‘ 10 اکتوبر 1990ء کو اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسری بیٹی حینا عنایت کی‘ یہ بچی پیدائشی طور پر دل کی خوف ناک بیماری کا شکار تھی‘ یہ سر سے پاؤں تک نیلی پیدا ہوئی تھی‘ یہ نیلا رنگ ثابت کرتا تھا بچی کا خون آکسیجن جذب نہیں کر رہا چناں چہ بچی کو پیدائش کے فوراً بعد آپریشن تھیٹر شفٹ کر دیا گیا۔ ایکسرے ہوا‘ پتا چلا بچی کے سینے میں دل کی مرکزی آرٹری بند ہے‘ ڈاکٹر لارنس خود ڈاکٹر بھی تھے اور ڈائریکٹر بھی‘ یہ جانتے تھے بچی کی اوپن ہارٹ سرجری ہو گی‘ پورا سینہ کھولا جائے گا اور دل کی مرکزی رگ کاٹ کر اس میں عارضی نالی لگائی جائے گی‘

یہ انتہائی مشکل آپریشن ہوگا‘ بچی اس میں بچ نہیں سکے گی اور یہ اگر بچ بھی گئی تو نالی زیادہ دنوں تک کام نہیں کرے گی‘ بچی دو تین برس بعد ایک بار پھر اس تکلیف دہ عمل سے گزرے گی اور یہ اس میں ضرور انتقال کر جائے گی اور یہ اگر اس میں بھی بچ گئی تو بھی یہ زیادہ برسوں تک زندہ نہیں رہ سکے گی‘ یہ بیماری اسے پانچ سات برسوں میں والدین سے چھین لے گی۔ ڈاکٹر بچی کے طبی مقدر سے واقف تھے لیکن اس کے باوجود ہسپتال نے نیویارک کا بہترین ہارٹ سرجن بلا لیا‘ ڈاکٹروں کی ٹیم بھی پہنچ گئی‘ بچی کو آپریشن تھیٹر میں لٹا دیا گیا‘ سرجن آلات سیدھے کرنے لگے اور ڈاکٹر لارنس پریشانی کے عالم میں آپریشن تھیٹر سے نکلے اور بے چینی سے کوریڈور میں ٹہلنے لگے‘

وہ ٹہلتے ٹہلتے آخری سرے تک پہنچ گئے‘ انتظامیہ نے چند سال قبل مریضوں کے لواحقین کے لیے ہسپتال میں ”دعا کا کمرہ“ بنا دیا تھا‘ یہ فقط ایک کمرہ تھا۔ کمرے میں دیواروں اور قالین کے علاوہ کچھ نہیں تھا‘ لواحقین وہاں آتے تھے اور اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے رہتے تھے‘ ڈاکٹر لارنس دعا کے کمرے کے سامنے پہنچے‘ بے اختیار ہوئے‘ جوتے اتارے اور اندر داخل ہو گئے‘ یہ زندگی میں پہلی بار دعا کے لیے کسی عبادت گاہ میں داخل ہوئے تھے‘ وہ دیوار کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھے‘

منت کی پوزیشن میں ہاتھ باندھے اور آہستہ آہستہ سرگوشی کی ”اے خدااگر تم ہو تو پلیز میری مدد کرو‘ مجھے تمہاری مہربانی کی ضرورت ہے‘ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں‘ اگر میری بیٹی بچ گئی‘ یہ اگر صحت مند ہو گئی تو میں وہ مذہب اختیار کر لوں گا جو تمہیں سب سے اچھا لگتا ہے“۔ وہ بار بار یہ کہہ رہے تھے اور آنسو پونچھ رہے تھے‘ یہ سارا عمل پندرہ منٹ پر محیط تھا‘ وہ پندرہ منٹ بعد آپریشن تھیٹر میں پہنچے اور حیران رہ گئے‘ سرجن ایک کونے میں پریشان کھڑا تھااور آپریشن کی ٹیم حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھی

جب کہ بچی اپنا انگوٹھا منہ میں دے کر چمک دار نیلی آنکھوں کے ساتھ کبھی دائیں دیکھ رہی تھی اور کبھی بائیں‘ حینا آپریشن اوردوا کے بغیر اچانک ٹھیک ہو گئی تھی‘ بچی کا دوبارہ ایکسرے ہوا‘ پہلا اور دوسرا ایکسرا ایک دوسرے کے ساتھ رکھا گیا اور ڈاکٹروں کی چیخ نکل گئی‘ دونوں ایکسرے ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ پہلا انتہائی بیمار بچی کا ایکسرے تھا جب کہ دوسرا ایک مکمل اور صحت مند بچی کا ایکسرے تھا‘ ڈاکٹر حیران تھے‘ وہ اس معجزے کی وجہ جاننا چاہتے تھے لیکن ڈاکٹر لارنس براؤن وجہ بھی جانتے تھے اور معجزے کی حقیقت بھی‘ بچی چند دن مزید ہسپتال رہی اور ڈاکٹر لارنس براؤن کے ساتھ گھر آ گئی‘

یہ بچی اس وقت میڈیکل ڈاکٹر ہے اور مکمل صحت مند اور شان دار زندگی گزار رہی ہے۔ڈاکٹر لارنس براؤن کوحینا کے معجزے نے یقین دلا دیاخدا بھی موجود ہے اور یہ انسانوں کو معجزے بھی دکھاتا ہے‘ ڈاکٹر کو اپنا وعدہ بھی یاد تھا چناں چہ یہ اللہ کے پسندیدہ ترین مذہب کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ عیسائیت کا مطالعہ کیا‘ یہودی کتابیں پڑھیں‘ یہ بودھ متوں اور ہندوؤں کے پاس بھی گئے‘ پوپ اور ربی اعظم سے بھی ملے اور بھارت اور تبت بھی گئے لیکن کوئی مذہب ان کے دل کو نہ چھو سکا‘

یہ انتہائی پڑھے لکھے اور وسیع المطالعہ شخص تھے‘ دنیا کی دو بڑی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے‘ چار کتابوں کے مصنف تھے اور میڈیکل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر تھے چناں چہ یہ ہر وقت لاتعداد سوالوں سے لوڈڈ رہتے تھے‘ ربی اعظم اورپوپ تک کے پاس ان کے سوالوں کا  تسلی بخش جواب نہیں تھا‘ یہ گھومتے گھومتے تنگ آ گئے اور چلتے چلتے ایک دن اچانک چھوٹی سی مسجد میں داخل ہو گئے۔ بس مسجد کی دہلیز پار کرنے کی دیر تھی اور ان کی روح میں ایک چھوٹا سا چراغ جل اٹھا‘

یہ مسجد کی دیوار چوم کر واپس آ گئے‘ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ خریدا‘ پڑھنا شروع کیا اور پھر روح روشن ہوتی چلی گئی‘ یہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ تورات اور انجیل کا مطالعہ بھی کرتے جا رہے تھے‘ قرآن مجید مکمل ہوا تو پتا چلا اسلام ہی وہ مسنگ لنک تھا جسے یہ چار سال سے تلاش کر رہے تھے‘ یہ اس کے بعد سیرت النبیؐ کی طرف متوجہ ہوئے‘ سیرت کی کتابیں پڑھیں اور پھر اندر نور ہی نور جمع ہو گیا۔ ڈاکٹر لارنس براؤن کو ہدایت ملی اور یہ 1994ء میں مسلمان ہو گئے‘ یہ اب مریضوں کا علاج کرتے ہیں‘ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں‘ نماز پڑھتے ہیں اور تبلیغ فرماتے ہیں‘ یہ چھ کتابیں تحریر کر چکے ہیں‘

ان کا ایک ناول  دنیا کی بیسٹ سیلر کتابوں میں شامل ہے‘ یہ ناول چرچ کی تاریخ‘ مذہب اور روحانیت کا خوب صورت امتزاج ہے‘ ڈاکٹر مختلف رسائل اور اخبارات میں بھی لکھتے ہیں اور اسلام پر لیکچر بھی دیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان میں بے تحاشا تاثیر رکھی ہے۔ آپ اگر انہیں سننا شروع کریں تو آپ سنتے چلے جاتے ہیں‘ یہ اکثر اپنی کہانی سناتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ انسانوں کو دو طریقوں سے اپنی طرف بلاتا ہے‘ یہ پہلے کرسٹینا جیسے معجزوں سے انسان کو حیران کرتا ہے‘

انسان اگر اس پیغام کو سمجھ جائے اور یہ اللہ کے در پر آ جائے تو سبحان اللہ لیکن یہ اگر اس پیغام کو مسترد کر دے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے بلانے کے لیے حینا جیسی کال کرتا ہے‘ ہم اگر یہ بھی سن لیں تو بھی کیا بات ہے‘ ہم پر ہدایت کے دروازے کھل جاتے ہیں لیکن اگر ہم یہ کال بھی مس کر دیں تو پھر اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں پر مہر لگا کر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ وہ نئے لوگوں کو تلاش کرتا ہے چناں چہ آپ جب بھی اللہ کی پہلی کال سنیں آپ اسی وقت دوڑ کر اس کی طرف نکل جائیں‘ کیوں؟

کیوں کہ آپ اللہ کی دوسری کال کو برداشت نہیں کر سکیں گے‘ آپ کو پھراپنے بچے آپریشن تھیٹر میں چھوڑ کر اس کی طرف دوڑنا پڑے گا۔میں جب بھی ڈاکٹر لارنس براؤن جیسے لوگوں کو سنتا ہوں اور پھر اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو ہمیشہ میرے دل سے آواز آتی ہے اللہ تعالیٰ نے اسلام ڈاکٹرلارنس براؤن جیسے عظیم لوگوں کے لیے اتارا تھا‘ ہم جیسے جاہل اور ظالم اس کے حق دار نہیں ہیں‘ ہم جہالت اور ظلم کے علاوہ کسی چیز کو ڈیزرو نہیں کرتے‘شاید شاید اسلام ہمارے جیسے جاہلوں کے لیے نہیں تھا‘ ہم اس کے قابل ہی نہیں ہیں۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…