گونواز گو

27  اپریل‬‮  2017

ہوانگ دافا کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ پورے گاﺅں کے ساتھ نقل مکانی کر جاتا یا پھر یہ اپنے لوگوں کےلئے پانی کا بندوبست کرتا‘ یہ دونوں آپشن مشکل تھے‘ بارہ سو لوگوں کےلئے نئی جگہ کی تلاش‘ نئے کھیت‘ نئے مکان‘ نئے سکول اور روزگار کے نئے ذرائع کا انتظام آسان کام نہیں تھا‘ نقل مکانی کی صورت میں اسے اپنے ماضی ‘ اپنی تاریخ‘ اپنے بزرگوں کی قبروں سے بھی محروم ہونا پڑتا اور اپنی وہ زمین بھی چھوڑنا پڑتی جونسلوں نے آباد کی تھی جبکہ دوسرا ٹاسک بھی ناممکن تھا‘

گاﺅں میں پانی ختم ہو رہا تھا‘ زمینیں بنجر ہو رہی تھیں‘ کھیتوں میں خاک اڑ رہی تھی اور لوگ پینے کے پانی کےلئے ترس رہے تھے‘ پانی کا بندوبست کیسے ہو سکتا تھا؟ ہوانگ دافا کے سامنے دو ناممکنات تھے‘ نقل مکانی یا پھر پانی کا بندوبست‘ وہ سوچتا رہا یہاں تک کہ اس نے دوسرے ناممکن کو ممکن بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے گاﺅں کےلئے پانی کے بندوبست کا فیصلہ کر لیا‘ یہ 1959ءتھا‘ ہوانگ دافا اس وقت جوان تھا‘ وہ گاﺅں کاﺅوینگ با کا سردار تھا‘ گاﺅں پہاڑوں کے قدموں میں آباد تھا‘ آبادی کو 1958ءتک چشمے سیراب کرتے تھے لیکن پھر یہ چشمے اچانک سوکھ گئے اور گاﺅں خشک سالی کا شکار ہونے لگا‘ ہوانگ نے پانی کی تلاش شروع کی‘ پتہ چلا تین پہاڑوں کے فاصلوں پر ایک چھوٹی سی جھیل موجود ہے اور یہ اگر تین پہاڑ کاٹ کر پانی کو راستے دے دے تو گاﺅں سیراب ہوجائے گا لیکن تین پہاڑ کاٹنا ممکن نہیں تھا‘ آپ خود سوچئے 1959ءکا زمانہ ہو‘ چین کا ملک ہو‘ ٹیکنالوجی اور لوگ دونوں غریب ہوں اور دور دراز علاقے کا ایک غیر معروف گاﺅں ہو اور اس گاﺅں میں پانی کی مسلسل قلت ہو اور گاﺅں کا ایک شخص تین پہاڑ کاٹ کر پانی لانے کا فیصلہ کرے تو آپ کو کیسا لگے گا‘ آپ بھی یقینا اسے دوسرے لوگوں کی طرح پاگل سمجھیں گے‘ لوگوں نے ہوانگ کو بھی پاگل ڈکلیئر کر دیا لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا‘

اس نے گاﺅں کےلئے پانی کی راشنگ کی‘ پہاڑ توڑنے کے اوزار جمع کئے اور پہاڑ کاٹنا شروع کر دیا‘ ہوانگ یہ کام مسلسل 36 سال کرتا رہا‘ ان 36برسوں میں برفیں پڑیں‘ طوفان آئے‘ گرمیاں آئیں‘ برساتیں آئیں اور زلزلے آئے لیکن ہوانگ ڈٹا رہا‘ وہ پہاڑ توڑتا رہا‘ وہ شروع میں اکیلا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے‘ وہ بھی اس کے کام میں شریک ہو گئے‘ اس ناممکن کام کے دوران ایک مشکل ترین مرحلہ بھی آیا‘ وہ لوگ پہاڑ کے درمیان 100 میٹر لمبی سرنگ کھودنے پر مجبور ہو گئے‘

یہ سرنگ ناگزیر تھی‘ یہ لوگ سرنگ کے بغیر پانی آگے نہیں لے جا سکتے تھے اور یہ سرنگ بنانے کے فن سے نابلد تھے‘ ہوانگ نے اس کا بھی دلچسپ حل نکالا‘ یہ قریبی شہر فینگ زیانگ گیا اوریونیورسٹی میں داخلہ لے لیا‘ اس نے یونیورسٹی سے پانی کے بہاﺅ اور ندیوں کی تعمیر کا علم حاصل کیا‘ یہ گاﺅں واپس آیا‘ اپنا علم دوسرے لوگوں کو سکھایا اور یہ لوگ سرنگ کھودنے میں مشغول ہو گئے‘یہ سرنگ بھی مکمل ہو گئی اور پھر وہ وقت آ گیا جب ہوانگ نے پہاڑ کے اوپر کھڑے ہو کر پانی کا ناکا توڑا‘

پانی جھیل سے نکلا‘ دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا‘ سو میٹر لمبی سرنگ سے گزرا اورہوانگ کے گاﺅں پہنچ گیا‘ ہوانگ نے ان 36برسوں میں 7200میٹر لمبی نالی اور 2200 میٹر لمبا نالہ تیار کیا‘ یہ دونوں مل کر نہر بنے اور یہ نہر عزم اور حوصلے کی نئی تاریخ بن گئی‘ یہ لوگ اب اس پانی سے نہ صرف اپنی اور اپنے جانوروں کی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ یہ سالانہ 40 لاکھ کلو گرام چاول بھی اگاتے ہیں‘ ہوانگ پورے علاقے کا ہیرو ہے‘ لوگ اوتار کی طرح اس کی عزت کرتے ہیں۔یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے‘

اس چھوٹی سی کہانی نے ہمارے ہمسائے ملک چین میں جنم لیا‘ آپ یہ کہانی پڑھیے اور سوچئے ہوانگ دافا ایک اکیلا آدمی تھا‘ اس اکیلے آدمی نے 36 سال لگا کر تین پہاڑ کاٹے‘ دس کلو میٹر لمبی نہر بنائی اور اپنے گاﺅں کو سیراب کر لیا جبکہ ہم 20 کروڑ لوگ ہیں‘ ہم 20 کروڑ لوگ مل کر بھی اپنے مسئلے حل نہیں کر پا رہے‘ آپ صرف کراچی شہر کی مثال لے لیجئے‘ کراچی اڑھائی کروڑ لوگوں کا شہر ہے‘ یہ شہر روزانہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے‘

یہ کچرا سڑکوں اور گلیوں میں بکھرا ہوا ہے‘ نالیاں‘ نالے اور گٹر ابل رہے ہیں‘ سڑکوں پر سیوریج کا پانی بہہ رہا ہے اور ماحول میں آلودگی کی شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے‘ شہر پینے کے پانی کی خوفناک قلت کا شکار بھی ہے‘ شہر کو روزانہ گیارہ سو ملین گیلن پانی چاہیے جبکہ اسے 700 ملین گیلن پانی مل رہا ہے اورشہر کا بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہے‘ بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ ہے‘ پاک سرزمین پارٹی نے ان مسائل کے حل کےلئے 18 دن کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا‘

مصطفی کمال حکومت کا ضمیر جگانے کی کوشش میں ہلکان ہو گئے لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی‘ ایم کیو ایم پاکستان بھی مسلسل احتجاج کر رہی ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن بھی ”کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا“ کی دہائیاں دے رہی ہے‘ وزیراعلیٰ سندھ بھی وفاق کو دھمکا رہے ہیں اور کراچی کے لوگ بھی پانی پانی‘ بجلی بجلی اور کچرا کچرا کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ہوانگ دافا نہیں‘ کوئی ایک شخص ایسا نہیں جو چین کے اس جنونی کی طرح اٹھے اور کراچی کا کچرا اٹھانا شروع کر دے‘

جو شہر کےلئے نہر کھودنا شروع کر دے‘ جو سمندر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنا دے‘ جو لوگوں کو پانی کو تین تین بار استعمال کرنے کی ٹریننگ دے‘ آپ سب سے پہلے پانی پئیں‘ کھانا کھائیں‘ منہ‘ برتن اور کپڑے دھوئیں‘ اس استعمال شدہ پانی کی تھوڑی سی ٹریٹمنٹ کریں اور پھر اس پانی سے فرش دھوئیں‘ گاڑیاں صاف کریں‘ پودوں اور گملوں کو سیراب کریں اور پھر اس پانی کو تھوڑا سا مزید ٹریٹ کر کے اسے ٹوائلٹس میں استعمال کریں یوں پانی تین بار استعمال ہوگا اوراس کی کھپت میں دو تہائی کمی آ جائے گی او ر کراچی میں کوئی ایک شخص نہیں جو لوگوں کو بارش کا پانی سٹور کرنے کا طریقہ سکھادے‘

لوگ زیر زمین ٹینک بنائیں‘ بارش کا پانی جمع کریں اور یہ پانی فلیش سسٹم‘ فرش اور گاڑیوں کی دھلائی اور پودوں کےلئے استعمال کریں‘ کیا پورے کراچی شہر میں کوئی ایک ایسا ہوانگ دافا نہیں جو لوگوں کو اپنے اپنے گھر کا کچرا ٹھکانے لگانے کا طریقہ سکھا دے‘ کراچی میں روزانہ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے‘ کراچی میں اڑھائی کروڑ لوگ رہتے ہیں‘ ہم اگر کل کچرے کو اڑھائی کروڑ پر تقسیم کریں تو کراچی میں کچرے کی شرح نکل آئے گی‘ یہ شرح معمولی ہو گی ‘

کیا لوگ اپنا اپنا کچرا ٹھکانے نہیں لگا سکتے‘ ہر شخص جلانے والی اشیاءکو الگ کر کے جلا دے‘ دفن کرنے والی اشیاءکو دفن کر دے اور کاغذ‘ پلاسٹک اور شیشے کو الگ کر کے بوریوں میں ڈالے اور ہفتے کے آخر میں کباڑیئے کو بیچ دے‘ ہر شخص کو اس کام میں روزانہ دس منٹ لگیں گے اور شہر صاف ہو جائے گا‘ کراچی کے تمام محلوں میں محلہ کمیٹیاں بھی بن سکتی ہیں‘ یہ کمیٹیاں محلے کی صفائی کا بندوبست کریں‘ ایک سویپر پوری گلی کےلئے کافی ہو گا‘ لوگ تھوڑے تھوڑے پیسے ڈال کر سویپر کا کا بندوبست کریں اور یوں اپنا محلہ صاف کر لیں‘ بجلی کا مسئلہ بھی قابل حل ہے‘

آپ کراچی کا شارٹ فال دیکھیں۔ ”پیک آورز“ نکالیں اور ان ”پیک آورز“ میں تین تہائی بتیاں بجھا دیں‘ تین کی بجائے ایک پنکھے سے کام چلائیں‘ صرف ایک اے سی چلالیں‘ پیک آورز میں موٹر اور استری کا استعمال بند کر دیں‘ یوں شارٹ فال کم ہو جائے گا اور لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی‘ کیا پورے شہر میں کوئی ایک ایسا شخص نہیں جو ریلیوں اور دھرنوں کی بجائے عملی قدم اٹھائے‘ جوہوانگ دافا کی طرح کام شروع کر دے‘ شاید کوئی نہیں۔آپ ملک کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے‘ ہمارے ملک میں گو نواز گو اور رو عمران رو کے نعرے لگانے والے لاکھوں ہیں لیکن مسائل حل کرنے والا کوئی شخص نہیں‘

ہم میں سے ہر شخص کو چوپڑی بھی چاہیے اور دو دو بھی لیکن ہم میں سے کوئی پکانے کےلئے تیار نہیں‘ ہم سب کسی ایسے لیڈر کا انتظار کر رہے ہیں جو دنیا بھر میں جھولی پھیلائے‘ پیسے اکھٹے کرے اور یہ پیسے 20 کروڑ لوگوں میں بانٹ دے‘ کیا یہ ممکن ہے‘ جی نہیں‘ قوموں کو قوم ہوانگ دافا جیسے لوگ بناتے ہیں ‘ ہم جب تک اپنے ملک میں ایسے لوگ پیدا نہیں کریں گے‘ ہم اس وقت تک قوم نہیں بنیں گے‘ ہم اس وقت تک ریلیاں نکالتے اور گو نواز گو کے نعرے لگاتے رہیں گے۔



کالم



ضد کے شکار عمران خان


’’ہمارا خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے میں…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…