سعودی عرب میں ایک اور بڑی تبدیلی پاکستانی نوجوان اب سعودی لڑکی کیساتھ بھی شادی کر سکیں گے کن قوانین پر عمل کرنا ہوگا؟شرائط و ضوابط جاری

23  اگست‬‮  2020
Couple holding hands

اسلام آباد،ریاض(مانیٹرنگ ڈیسک،این این آئی)سعودی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ سعودی خواتین جو کسی غیر ملکی سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے کچھ شرائط پوری کرنا ہوں گی، خاتون کی عمرکم از کم 30 سال اور زیادہ سے زیادہ 55 سال ہونی چاہیے۔ غیر ملکی مرد اور سعودی خاتون کے درمیان عمروں کا فرق دس سال سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

سعودی خاتون سے شادی کرنے کے لیے کم از کم تنخواہ پانچ ہزار ریال ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ ایک مستقل رہائش گاہ بھی لازمی ہے۔ اگر کسی سعودی خاتون کی معذوری یا بیماری کی وجہ سے شادی نہ ہو پا رہی ہو تو ایسی صورت میں غیر ملکی سے شادی کے لیے اس کی عمر کی کم از کم حد 27 سال بھی قابل قبول ہو گی۔ اس مقصد کے لیے وزارت سماجی امور کی جانب سے ایک سرٹیفکیٹ بھی حاصل کر کے بطور ثبوت فراہم کرنا ہو گا۔غیر ملکی افراد کو سعودی خواتین سے شادی کرنے کے لیے دستاویزی ثبوت فراہم کرنا ہو گا کہ وہ اپنے ملک یا سعودی عرب میں کسی فراڈ یا جرم میں مطلوب یا سزا یافتہ نہیں ہیں، ایسے افراد کو یہ ثبوت بھی دینا ہو گا کہ وہ کسی مہلک یا وراثتی بیماری کا شکار نہیں ہیںاور شادی کے وقت وہ برسرروزگار ہیں یا بے روزگار ہیں۔ غیر ملکی کا کسی کالعدم تنظیم سے تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم یہ بات دھیان میں رہے کہ سعودی خواتین سے شادی کرنے والے غیر ملکیوں اور ان سے پیدا ہونے والے بچے سعودی عرب کی شہریت حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ غیر ملکی مرد کے پاس کارآمد پاسپورٹ ہونا چاہیے اس کا مملکت میں قیام غیر قانونی نہ ہو اور اسے اقامہ حاصل کیے کم از کم 12 ماہ گزر گئے ہوں۔اسی طرح سعودی مرد اور خواتین غیر ملکیوں سے شادی کر سکیں گے تاہم اس کے لیے انہیں کچھ قواعد و ضوابط پر عمل کر نا ہو گا۔

سعودی حکومت کی جانب سے سعودی خواتین پر عائد سابقہ پابندیوں میں کچھ نرمی کا اعلان کرتے ہوئے نئی شرائط کا اعلان کیا گیا ہے۔ سعودی مردوں کے لیے یہ شرائط رکھی گئی کہ کسی غیر سعودی خاتون سے شادی کرنے کے لیے ان کی آمدنی تین ہزار ریال سے کم نہیں ہونی چاہیے، اس کے پاس مناسب رہائش کا انتظام ہونا چاہیے۔غیر سعودی خاتون سے شادی کرنے والے سعودی درخواست گزار کی عمر 40 سال سے کم اور 65 سال سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔

جبکہ جس غیر سعودی خاتون سے شادی کی جا رہی ہے اس کی عمر کم از کم 25 سال ہونی چاہیے۔ سعودی مرد اور غیر سعودی خاتون کے درمیان عمروں کا فرق 30 سال سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔ اگر سعودی درخواست گزار کی پہلے کسی مقامی یا غیر مقامی خاتون سے شادی کے بعد طلاق ہوئی ہو تو اگلی شادی کے لیے کم از کم دو سال کا وقفہ ہونا ضروری ہے۔اگر کوئی سعودی اپنی ہم وطن بیوی کی جسمانی معذوری،اولاد پیدا نہ کرنے یا ازدواجی معاملات نہ نبھا سکنے کی صلاحیت کی وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے سرکاری یا نجی ہسپتال سے بیوی کی رپورٹ لے کر جمع کروانی ہو گی جو وزارت صحت سے تصدیق شدہ ہو۔

تاہم یہ بات یاد رہے کہ کسی غیر ملکی خاتون سے شادی کرنے پر اس خاتون کو سعودی نیشنلٹی نہیں ملے گی۔ سعودی حکام کی جانب سے ان قوانین پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے ۔دوسری جانب ایک عرب ٹی وی کے مطابق سعودی عرب کے سرکارہ ادارہ برائے شماریات کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مملکت میں 66 فی صد نوجوان غیرشادی شدہ ہیں۔ مملکت کی 36 اعشاریہ 7 فیصد آبادی 15 سال سے 34 سال کے درمیان نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں 20 سال سے 24 سال کے درمیان نوجوان 27 اعشاریہہ 6 فی صد لڑکے ہیں جب کہ لڑکیوں کی تعداد بھی اتنی ہی بتائی جاتی ہے۔

25 سے 29 سال کے نوجوانواں کا تناسب 26 اعشاریہ 2 فی صد، جب کہ بچوں اور نوجوانوں کا کل آبادی میں تناسب 67 فی صد ہے۔اس تفصیلی رپورٹ میں سعودی عرب میں نوجوانوں کی عمریں، آبادی، تعداد، ان کے سماجی، اقتصادی، تعلیمی، طبی، ثقافتی اور تفریحی حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 سے 34 سال کے 66 اعشاریہ 23 فی صد افراد غیر شادی شدہ ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد ملا کر یہ تناسب 75 فی اعشاریہ چھ فی صد بنتا ہے۔ خواتین میں 15 سے 34 سال کی 50 اعشاریہ 4 فی صد خواتین غیر شادی شدہ ہیں۔

25 سے 34 سال کی 43 عشاریہ ایک فی صد خواتین کنواری ہیں جب کہ اسی عمر میں شادی شدہ لڑکیوں کا تناسب 43 اعشاریہ 3 فی صد ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 سے 34 سال کے 5 اعشاریہ 5 فی صد نوجوان دائمی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان میں بچوں کا تناسب 5 اعشاریہ 8 فی صد اور بچیوں کا 5 اعشاریہ 2 فی صد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں نوجوان لڑکیوں کی اکثریت اپنی جسمانی فٹنس کے لیے ورزش کا اہتمام کرتی ہے۔سنہ 2007 سے 2017 کے درمیان 15 سے 34 سال کے نوجوانوں میں ناخواندگی کی شرح میں کمی آئی ہے۔مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب میں 68 فی صد طلبا و طالبات کو حصول تعلیم میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں۔ سنہ 2019 کی رپورٹ کے مطابق مملکت میں 99 اعشاریہ 8 فی صد بچے اسکول جاتے ہیں۔سعودی عرب میں موجود 15 سے 34 سال کے کل 1.489.520 افراد کسی کام کاج میں یا حصول تعلیم میں مصروف ہیں جن میں 47 فی صد سعودی شہری ہیں۔

موضوعات:



کالم



آئوٹ آف دی باکس


کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…