برمنگھم(آئی این پی) پاکستان کرکٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر وسیم گلزار خان نے کہا ہے کہمیرے پاس الہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ راتوں رات پاکستانی کرکٹ کو ٹھیک کردوں، پی سی بی ہیڈکوارٹرر میں مزید پروفیشنل نظام لاؤں گا،آسٹریلیا اور انگلینڈ کی طرز پر طویل المعیاد حکمت عملی بناؤں گا۔
مختصر المعیاد حکمت عملی سے کوئی فائدہ نہیں ہے،پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کو ٹھیک کرنا میری سب سے بڑی ترجیح ہوگی۔ غیر ملکی بورڈز اور ان کے کھلاڑیوں کے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے جو خوف ہے اس دل سے نکالیں گے۔اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر وسیم گلزار خان کا کہنا تھا کہ عام طور پر انگلینڈ اور آسٹریلیا میں تین سالہ یا پانچ سالہ حکمت عملی بنائی جاتی ہے، میں بھی طویل المعیاد حکمت عملی بناؤں گا کیوں کہ مختصر المعیاد حکمت عملی سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور جلد بازی کے بجائے سوچ وبچار کے ساتھ سسٹم کو بہتر کروں گا۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے اور مجھے علم ہے کہ پاکستان کرکٹ میں بہتری لانا آسان کام نہیں ہے لہذا وقت سے پہلے غیر ضروری وعدے نہیں کروں گا اور 30 دن پی سی بی کی صورتحال کا جائزہ لوں گا لیکن بورڈ میں تبدیلی کیلئے اس وقت کوئی ٹائم فریم دینا مشکل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کوشش کروں گا کہ زندگی کے اس مشکل ترین چیلنج کو پورا کرکے سسٹم کو سمجھوں اور اسے بہتر کروں کیوں کہ راتوں رات کچھ نہیں ہوگا لیکن اگر آپ کی نیت صاف ہو تو زندگی میں مشکل منزل بھی آسان ہوجاتی ہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میرے لئے یقینی طور پر نئی آرگنائزیشن ہوگی لیکن پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کو ٹھیک کرنا میری سب سے بڑی ترجیح ہوگی، میرے پاس الہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ راتوں
رات پاکستانی کرکٹ کو ٹھیک کردوں۔وسیم خان نے کہا کہ انگلینڈ میں 18 ٹیمیں فرسٹ کلاس کھیلتی ہیں، میری کوشش ہوگی کہ پاکستان میں فرسٹ کلاس میں کم ٹیمیں ہوں لیکن ہائی کوالٹی کرکٹ زیادہ ہو اور جن پچوں پر فرسٹ کلاس کرکٹ ہوتی ہے اس میں بہتری لانا ہوگی، پاکستان میں کرکٹ اور ریجن کی صورتحال سمجھ کر ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان لانے کی پوری کوشش کروں گا، پاکستان آنے سے پہلے انگلش بورڈ کے حکام سے ملوں گا۔
اور ان سے پوچھوں گا کہ پاکستان کی سیکیورٹی میں کیا کمی ہے لہذا اس خامی کو دور کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی صورتحال بہتر ہونے کے بعد اب غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان آنے چاہیے، غیر ملکی بورڈز اور ان کے کھلاڑیوں کے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے جو خوف ہے اس دل سے نکالیں گے اور اصل پرابلم کو دور کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وسیم خان کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ ورلڈ میں کام کی اہمیت ہے اور میری تنخواہ کو خواہ مخواہ ایشو بناکر مجھے متنازع بنایا جارہا ہے۔