ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاک بھارت میچ میں تفریح ہو یا جذبات سب کچھ ملے گا،وقار یونس

datetime 18  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(سپورٹس ڈیسک)پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور کوچ وقار یونس نے کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا جتنی زیادہ کرکٹ کھیلیں گے اس نے نہ صرف شائقین کو اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی بلکہ یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے بھی اچھا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ خدا کرے کہ پاکستان اور انڈیا اس ٹورنامنٹ میں تین مرتبہ ہی سامنے آئیں۔پاکستان اور انڈیا کا

پہلا میچ 19 ستمبر کو شیڈول ہے اور اس کے بعد دونوں ٹیموں کا اگلے مرحلے اور فائنل تک رسائی کی صورت میں تیسری مرتبہ بھی سامنا ہو سکتا ہے۔یہ 2017میں ہونے والے چیمپیئنز ٹرافی فائنل کے بعد پہلا موقع ہو گا کہ پاکستان اور انڈیا کسی ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں مدِمقابل ہوں گے۔وقار یونس کا کہنا تھا کہ ‘اتنے برسوں کے بعد تین اکٹھے میچ، تھوڑا ہضم کرنا شاید مشکل ہوجائے لیکن اچھا ہے کہ جتنا پاکستان انڈیا کھیلیں گے تعلقات بھی اس سے بہتر ہوں گے اور لوگوں کو اچھی کرکٹ بھی دیکھنے کو ملے گی۔ لوگ بہت ترسے ہوئے ہیں، بہت بھوکے ہیں اس انڈیا پاکستان کرکٹ کے۔پاکستان اور انڈیا کے میچز میں تو آپ کو گارنٹی ہے کہ یہ مکمل تفریح کا ذریعہ ہیں۔ اس میں تفریح بھی ملے گی جذبات بھی ملیں گے سب کچھ ملے گا۔وقار یونس نے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور انڈیا دونوں ہی اچھی کرکٹ کھیل رہی ہیں لیکن فی الوقت وہ پاکستان کو فیورٹ سمجھتے ہیں لیکن کرکٹ کے کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔انڈیا نے ٹیسٹ سیریز ضرور ہاری ہے لیکن اس کی ون ڈے کی ٹیم پچھلے پانچ سات سال سے بہت اچھی ہے۔ ان کی ٹیم بہت متوازن ہے۔ ان کی بولنگ بھی اچھی ہے اور بیٹنگ بھی اچھی ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو پاکستانی ٹیم کی جو موجودہ فارم ہے حال ہی میں وہ زمبابوے میں بہت اچھا کھیل کر آئی ہے۔ اس سے پہلے گذشتہ سال اس نے چیمپئنز ٹرافی جیسا بڑا ٹورنامنٹ بھی جیتا ہے تو مورال اور دل بڑا ہوا ہے۔

میرے خیال میں اس وقت پاکستان فیورٹ ہے لیکن کرکٹ ہے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔وقار یونس کا کہنا تھا کہ ان کے زمانے میں پاکستان اور انڈیا کے میچ میں اتنا دبا میں نہیں ہوتا تھا جتنا اب ٹیم کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کی وجہ اب کم میچوں کا ہونا ہے۔ہمارے زمانے میں اتنا زیادہ پریشر نہیں ہوتا تھا کیونکہ دونوں کے درمیان کرکٹ باقاعدہ ہوتی تھی۔ دو ون ڈے ٹورنامنٹس ہم شارجہ میں کھیلا کرتے تھے لہذا اتنا دبا نہیں ہوتا تھا۔ اب چونکہ ہم پچھلا میچ گذشتہ سال چیمپئنز ٹرافی کا کھیلے ہوئے ہیں تو کافی عرصہ ہو گیا۔

تو پھر لوگ ترستے ہیں۔ لوگ امیدیں اور امنگیں بنا لیتے ہیں کہ ایسا ہوگا ویسا ہوگا تو وہ ایک پریشر قائم ہوجاتا ہے۔ لوگوں کا پریشر آپ کو تنگ کرتا ہے اور آپ اسے اپنے دماغ پر لیتے ہیں۔تاہم انھوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ ٹیم جوان ہے اور اس کی خاصیت ہے کہ وہ دبا سے آزاد ہو کر کھیلتی ہے جو کہ اچھی بات ہے۔خاص کر فخر کے آنے کے بعد۔ حسن علی، شاداب خان، فہیم اشرف، امام الحق یہ نئے لڑکے دبا سے آزاد ہو کر کھیلتے ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ یہ نئی ٹیم اتنا اچھا کھیل رہی ہے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…