کراچی(آن لائن) بنگلادیش نے فکسنگ کیس میں پاکستان کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا۔بنگلادیش پریمیئر لیگ کے میچز ان دنوں مختلف گراؤنڈز میں جاری ہیں، یہ ایونٹ ابتدا سے ہی فکسنگ مسائل میں الجھا رہا جس کی وجہ سے ماضی میں اسے روک دیا گیا تاہم بعدازاں دوبارہ سے انعقاد ہونے لگا، اسی ایونٹ کے دوران ناصر جمشید بھی اسکینڈل میں پھنسے تھے تو ان کا پاسپورٹ تک ضبط کر لیا گیا تھا جب کہ پی ایس ایل فکسنگ تنازع کا
مرکزی کردار بھی ناصرکو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔گزشتہ برس بی پی ایل کے دوران ایک پاکستانی کرکٹر کو ہنی ٹریپ میں پھانسنے کی بھی کوشش ہوئی تھی، جاری ایونٹ کے دوران بھی کئی بکیز کو گرفتار کیا جا چکا، جوئے کی وجہ سے ہی ایک شخص کا قتل بھی ہو چکا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ معاملات اب بھی ٹھیک نہیں ہو سکے، یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی پی سی بی نے رواں سال کیلیے کئی کھلاڑیوں کو این او سی دیا جو ان دنوں ایکشن میں نظر آ رہے ہیں،ان میں شعیب ملک، فخر زمان، حسن علی، محمد عامر،جنید خان، بابر اعظم، محمد رضوان و دیگر شامل ہیں، سابق آل راؤنڈر شاہد آفریدی بھی ایونٹ میں حصہ لے رہے ہیں جب کہ سرفراز احمد اور شاداب خان سمیت بعض کرکٹرز نے اپنے معاہدے ختم کر دیے تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں برس پی ایس ایل کے دوران سامنے آنے والے فکسنگ اسکینڈل کے تانے بانے بنگلادیش لیگ سے بھی ملتے ہیں، اسی کے دوران بعض کھلاڑیوں سے سٹے بازوں نے رابطے کیے۔اس حوالے سے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں نجم سیٹھی نے انکشاف کیا کہ ابھی ہماری جو تحقیقات ہوئیں انھیں مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا خیال ہے کہ پلیئرز بنگلادیش لیگ میں کھیلے تو وہاں پر کچھ گڑبڑ ہوئی ہے، ہم نے بنگلہ دیشی بورڈ سے کہا کہ ہم اپنے
.پلیئرز کے بارے میں تحقیقات کرنا چاہتے ہیں چونکہ ایسا آپ کے گراؤنڈز میں ہوا لہذا ہمیں ثبوت دیں،انھوں نے جواب دیا کہ پہلی بات تو یہ کہ آپ ہمارے لیگ کے بارے میں کوئی تحقیقات نہیں کر سکتے،آپ ہم سے کچھ مانگیں گے تو بھی ہم آپ کو کچھ نہیں دیں گے، ہماری لیگ پر کوئی داغ آئے کوئی بات ہو تو آپ ہماری اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، یہ آپ کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا ہے۔واضح رہے کہ بنگلادیش نے کئی بار وعدے
کے مطابق اپنی ٹیم کوپاکستان نہیں بھیجا، اس کے باوجود پاکستانی بورڈ اس پر مہربان ہے، شارجہ میں آئندہ ماہ شیڈول ٹی ٹین لیگ کیلیے بھی تھوک کے حساب سے این او سی بانٹے گئے حالانکہ اس کی بھی زیادہ اچھی رپورٹس سامنے نہیں آرہیں۔ پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ کیس کی تحقیقات بھی کئی ماہ گذرنے کے باوجود اب تک مکمل نہیں ہو سکی ہیں۔ماہرین نے اس پر خاصی حیرت کا اظہار کیاکہ جانتے بوجھتے ہوئے کیوں اپنے کھلاڑیوں کو بکیز کے لیے آسان شکار بننے کا موقع دیا جا رہا ہے مگر بورڈ حکام کوئی سبق سیکھنے کوتیار نہیں ہیں۔