پیر‬‮ ، 18 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

معروف فاسٹ بائولر رائو افتخار سے تو آپ واقف ہی ہونگے آج کل یہ کہاں اور کس حال میں ہیں، جان کر دنگ رہ جائینگے

datetime 22  ‬‮نومبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ذیسک)رائو افتخار انجم پاکستان کرکٹ کے ایک روشن ستارہ ہیں، پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ یقینا آپ کے بغیر ادھوری سمجھی جائے گی اور اگر پاکستان کرکٹ میں فاسٹ بائولنگ کے شعبے کو دیکھا جائے تو رائو افتخار انجم کا گو کہ دورانیہ نہایت ہی قلیل مدت کا تھا تاہم انہوں نے اپنی عمدہ بائولنگ اور اخلاق سے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ رائو افتخار انجم جس طرح اچانک

پاکستان کرکٹ کے آسمان پر طلوع ہوئے اسی طرح وہ اچانک ہی منظر سے بھی غائب ہو گئے مگر پاکستانی میڈیا نے انہیں ڈھونڈ نکالا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے رائو افتخار انجم نے بتایا کہ ان کا تعلق خانیوال سے تھا اور وہ اپنے آبائی علاقے خانیوال میں کرکٹ کھیلتے تھے تاہم مناسب سہولیات کے فقدان کے باعث ان کی کارکردگی کچھ زیادہ اچھی نہ تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اسلام آباد اپنی سٹڈیز کے سلسلے میں گئے اور وہاں ایک بار پھر کرکٹ کھیلنا شروع کردی۔ اچھے گرائونڈ اور بہترین سہولیات کی بدولت جلد ہی کھیلتے ہوئے انہیں احساس ہوا کہ وہ کرکٹ میں نام بنا سکتے ہیں تو انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے مشاورت کی جس پر ان کے بڑے بھائی نے انہیں ایک سال کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو ایک سال کا وقت دے رہے ہیں آپ اگر سمجھتے ہیں کہ کرکٹ کی فیلڈ میں آپ کچھ اچھا کر سکتے ہیں تو آپ کے پاس ایک سال کا وقت ہے نہیں تو آ پ کو دوبارہ سٹڈیز کی جانب آنا ہو گا۔ رائو افتخار انجم بتاتے ہیں کہ کرکٹ سے وابستگی تو تھی ہی مگر کبھی نہیں سوچا تھا کہ بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملے گا ، کرکٹ میں انٹری اتفاقاََ اور شوقیہ تھی۔ رائو افتخار انجم نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے دلچسپ بات بتائی کہ سکول اور کالج کے زمانے میں وہ بحیثیت بلے باز ٹیم کا حصہ بنتے تھے جبکہ پارٹ ٹائم وکٹ کیپر کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے

مگر جب اسلام آباد میں ایک نئے سرے سے کرکٹ کا آغاز کیا اور کیونکہ میری کرکٹ میں دوبارہ انٹری حادثاتی تھی تو میں نے ایک نئی چیز آزماتے ہوئے بائولنگ سے آغاز کیا۔ میرے خانیوال میں جاننے والے افراد جنہوں نے مجھے کرکٹ کھیلتے دیکھا ہے انہوں نے جب مجھے ٹی وی پر فاسٹ بائولنگ کراتے دیکھا تو حیران رہ گئے کہ میں بائولر کیسے بن گیا کیونکہ میرا کرکٹ میں شروعاتی دور

بلے باز کے طور پر سامنے آیا تھا لہٰذا ان کی حیرت بے جا نہ تھی۔ رائو افتخار انجم سے جب پوچھا گیا کہ جب آپ پاکستانی ٹیم کا حصہ بنے تو اس وقت بڑے بڑے نام بائولنگ میں موجود تھے، شعیب اختر، محمد آصف اور محمد سمیع کی موجودگی میں آپ کے کیا احساسات تھے جس پر جواب دیتے ہوئے رائو افتخار انجم کا کہنا تھا کہ میرا ڈیبیو محمد آصف سے پہلے ہوا تھا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہا تھا

جس میں پر فارمنس شاندار تھی جس کی بنیاد پر 2004میں میرا نام بھارت کے دورے کیلئے سامنے آیا مگر ڈراپ کر دیا گیا اس کے بعد میں کینیا میں پاکستان اے ٹیم کی نمائندگی کیلئے گیا جبکہ زمبابوے کے خلاف مجھے باقاعدہ طور پر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کیپ دی گئی ۔ میرے ڈیبیو کے ساتھ ساتھ رانا نوید، محمد آصف، عمر گل بھی ٹیم کا حصہ بنے۔ ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ بننے کے حوالے سے

سوال کا جواب دیتے ہوئے رائو افتخار انجم کا کہنا تھا کہ ورلڈ کپ میں احساسات بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں، کیرئیر کے اچھے آغاز اور نامناسب اختتام کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے رائو افتخار انجم کا کہنا تھا کہ زندگی ایسی ہی ہے، آپ کی تمام پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرے،

میرے کیرئیر میں اچانک فل سٹاپ آیا جس کا مجھے ساری زندگی احساس رہے گا۔زندگی میں آنیوالے اتار چڑھائو، پاکستانی ٹیم میں انٹری اور اچانک آئوٹ اور پھر اس کے بعد مذہبی رجحان ، داڑھی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے رائو افتخار انجم نے کہا کہ ہمارا دین ہمیں کرکٹ کھیلنے سے نہیں روکتا، دنیا کی حقیقت ہر شخص کو معلوم ہونی چاہئے، کرکٹ تو آپ بطور پیشہ اختیار کرتے ہیں۔

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ مجھے ٹیم سے کیوں ڈراپ کیا گیا، کیونکہ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں تھی اور جب آپ کو مسئلے سے متعلق پتہ نہ ہو تو آپ اس کو حل بھی نہیں کر سکتے، شاید یہی وجہ ہے کہ میں ٹیم سے آئوٹ ہونے پر مزاحمت نہ کر سکا۔ رائو افتخار انجم کا کہنا تھا کہ میں نے ایک میچ میں پانچ کھلاڑی آئوٹ کئے اور اس کے بعد مجھے 8مہینے کیلئے ٹیم سے باہر کر دیا گیا

اس کے پیچھے جو بھی عناصر تھے مگر ایسا ہوا۔ ٹیم سے باہر ہونے کے بعد میں نے 3سال تک ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی۔ 2015میں آخری فرسٹ کلاس میچ کھیلا۔ ان کا کہنا تھا کہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اب آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور کسی اورکو ٹیم میں اِن کرنے سے متعلق پلاننگ کر لی گئی ہے۔ کیونکہ یہ میری فطرت نہیں تھی لہٰذا نہ ہی دوبارہ ٹیم میں آنے کیلئے کوئی درخواست کی اور نہ ہی کوشش،

اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہئے۔ رائو افتخار سے جب سوال کیا گیا کہ اتنا عرصہ ملک کیلئے کھیلے اور آخر میں آپ کی خدمات سے چشم پوشی اختیار کرنے کا دکھ تو ہو گا آپ کو تو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی رضا میں راضی رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کئی ایسے اچھے پلیئر بھی تھے

جو ٹیم میں جگہ حاصل نہیں کر سکے ، ہمیشہ مثبت سوچ اختیار کرنی چاہئے۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ اسے ہر چیز ہی کم لگتی ہے مگر جب آپ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اختیار کرتے ہیں تو کم لگنے والی چیز قابل اطمینان صورت اختیار کر جاتی ہے۔موجودہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں فاسٹ بائولنگ کے شعبے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے رائو افتخار انجم کا کہنا تھا کہ اگر میرے دور اور

آج کے دور میں فاسٹ بائولنگ کے شعبے کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ فاسٹ بائولنگ کے شعبے میں تھوڑی بہتری آئی ہے جس کا میں کریڈٹ حسن علی اور جنید خان کو دوں گا جن کی بدولت پاکستان کا بائولنگ اٹیک دوبارہ سے ناقابل تسخیر تصور ہونے لگا ہے۔ رائو افتخار سے جب سوال پوچھا گیا کہ محمد عامر کی سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد ٹیم میں واپسی سے متعلق بہت تنقید کی گئی

مگر محمد عامر کو ایک موقع اور دیا گیا تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ محمد آصف کو بھی ایک موقع ملنا چاہئے تو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمر کا کھلاڑی کے کھیل سے گہرا تعلق ہے۔ عامر کی عمر 25سال ہے اور وہ مزید 8یا 10سال کرکٹ کھیل سکتے ہیں مگر محمد آصف 35سے 36سال کے درمیان ہیں، فرسٹ کلاس میں ان کی کارکردگی سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے

نئے بال سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مگر اگر کہا جائے کہ محمد آصف میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی تو بے جا نہ ہو گا۔ آج کل مصروفیات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے رائو افتخار انجم کا کہنا تھا کہ آج کل اپنی فیملی کو وقت دیتا ہوں اور زندگی کو بھرپور انداز سے انجوائے کر رہا ہوں، بینک کی ٹیم سے منسلک رہا ہوں، آج کل کچھ ایشو چل رہے ہیں جو حل ہوتے ہی

دوبارہ سے بینک کی ٹیم کے ساتھ وابستہ ہو جائوں گا۔ مداحوں کے نام پیغام میں رائو افتخار کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مداحوں کے شکر گزار ہیں جو ان کی کارکردگی کو سراہتے رہے اور ان کے پردہ سے غائب ہونے پر بے چین بھی ہوئے ، مجھے اپنے کیرئیر کے حوالے سے کوئی ندامت نہیں اللہ کے کرم سے پاکستان کی نمائندگی کی جس پر فخر محسوس کرتا ہوں۔

 

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…