اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وطن عزیز میں یہ طریقہ کار بہت پرانا ہے کہ خبر دبانی ہو تو اس سے بڑی خبر لے آئیں، عوام پچھلا قصّہ بھول کر نئی راہ لے لیں گے اور معاملہ ختم ہوجائے گا۔ اِس بار بھی ایسا ہی ہوا لیکن اس دفعہ یہ طریقہ بہرحال کسی سیاست دان نے نہیں بلکہ ہمارے اکلوتے کرکٹ بورڈ نے اپنایا ہے۔ ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی اور بورڈ کی ناقص حکمت عملی کو چھپانے اور اسے میڈیا کے عتاب کا نشانہ بننے سے بچانے کے لیے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے پاکستان کپ کے انقعاد کا اعلان کردیا۔کرکٹ بورڈ نے 12 اپریل کو ’پاکستان کپ‘ کے نام سے ٹورنامنٹ کے انعقاد کا اعلان کیا، جس کے آغاز کی تاریخ 19 اپریل طے پائی۔ ایک روزہ میچوں پر مشتمل پاکستان کپ میں پانچ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، جن میں چاروں صوبوں بلوچستان، خیبرپختونخواہ، سندھ اور پنجاب کی ٹیموں کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ٹیم بھی شامل ہے۔اس سے پہلے بورڈ نے ’پاکستان سپر لیگ‘ (پی ایس ایل) کے نام سے ایک کامیاب ٹورنامنٹ کا انقعاد کیا۔ مگر پی ایس ایل کی کامیابی کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اِس کا انعقاد راتوں رات نہیں ہوا بلکہ اس کی بازگشت 2012ء سے سنائی دے رہی تھی اور طویل عرصے کی محنت اور جستجو کے بعد 2016ء میں یہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔دوسری جانب پاکستان کپ کو بورڈ کی نا اہلی چھپانے کا موقع کہنے سے پہلے ان عوامل کا جائزہ لے لیا جائے جو اسکے ناکام ہونے کے واضح اشارے دے رہے ہیں۔جہاں تک ٹورنامنٹ میں امپائرنگ کا سوال ہے تو پاکستان میں ہی نہیں، دوسرے ممالک میں بھی کرکٹ دیکھنے والے شائقین کے لیے علیم ڈار کا نام کوئی نیا یا عام نہیں۔ علیم ڈار پاکستان کی جانب سے 100 ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کے فرائض انجام دینے والے واحد امپائر ہیں، اور انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں بڑے اور اہم مقابلوں میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ مگر اپنے ملک میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں انکو نظر انداز کردیا گیا۔ایک عرصے سے ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ ملک میں ڈومیسٹک کرکٹ نہیں ہو رہی، جس کے سبب ہمارے پاس معیاری کھلاڑی سامنے نہیں آرہے۔ مگر اب جب کہ کہنے کو ایک ڈومیسٹک ٹورنامنٹ منعقد کروایا جا رہا ہے تو اسکی دو ٹیموں کی سربراہی یونس خان اور مصباح الحق کو دے دی گئی۔ یاد رہے کہ مجھے ذاتی طور پر ان دونوں کھلاڑیوں سے کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ یہی وہ دو کھلاڑی ہیں جنہوں نے مل کر مشکل ترین حالات میں قومی ٹیم کو سنبھال لیا، لیکن جب یہ دونوں کھلاڑی ایک روزہ کرکٹ سے ریٹائر ہوچکے ہیں تو کیونکہ انہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں ایک روزہ ایونٹ میں جگہ دی جائے؟ چلیں نوجوان کھلاڑیوں کے لیے بطور مثال اگر شامل کرنا ہے تو ضرور کیجیے، لیکن بطور کپتان کھلانا کہاں کا انصاف ہے؟ اِس عجیب و غریب فیصلے سے دو نوجوان کھلاڑی بطور کھلاڑی اور بطور کپتان اپنی صلاحیتیں دکھانے سے محروم رہ گئے، اِس کا جواب کون دے گا؟پھر جہاں تک میدان کے انتخاب کی بات ہے تو یہ بات طفل مکتب بھی جانتا ہوگا کہ شائقین کا رش اسی گراؤنڈ میں زیادہ ہوتا ہے جس شہر کی آبادی زیادہ ہو۔ اس حوالے سے تاریخ پر نظر دوڑایں تو پچھلے جتنے ٹورنامنٹ لاہور اور کراچی میں ہوئے وہ سب کامیاب تھے۔ لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ سارے ایونٹس انہی دو بڑے شہروں میں منعقد کیے جائیں کہ باقی شہر کے رہنے والوں کا بھی کرکٹ سے لطف اندوز ہونے کا پورا حق ہے، لیکن بہرحال یہ تو طے ہوجانا چاہیے نا کہ آپ کا مقصد پیسہ کمانا ہے یا میدان کو آباد کرنا ہے۔ دوسری جانب ہمارا بورڈ اور اْس میں کام کرنے والے کس قدر اہل ہیں یہ بات رمیز راجہ جونیئر کہ معمہ نے آشکار کردی۔ اسے کرکٹ بورڈ کی نا اہلی کہیے یا پھر لاعلمی کہ بلوچستان کی ٹیم میں شامل رمیز راجہ جونیئر ہی معلوم نہیں کہ کون کھیلے گا اور کسے باہر بیٹھنا پڑے گا۔ جب ٹیموں کے لیے انتخاب کا مرحلہ جاری تھا تو ہر کپتان کے پاس رمیز راجہ جونئیر کا نام سامنے آیا اور بلوچستان کے کپتان اظہر علی نے اْن کو منتخب کرلیا۔ جب سارے معاملات طے ہوگئے تو کچھ دن بعد ٹی وی چینلز میں خبریں گردش کرنا شروع ہوگئیں کہ ’رمیز راجہ جونئیر کون‘؟ معمہ حل نہ ہوسکا۔ اصل میں ہوا کچھ یوں کہ بورڈ نے کھلاڑیوں کی فہرست میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے رمیز راجہ کا نام ڈالا تھا، لیکن اظہر علی یہ سمجھے کہ یہ رمیز راجہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ہیں۔پاکستان کپ کو مذاق صرف بورڈ نے نہیں بنایا نہیں بلکہ پی ٹی وی اسپورٹس کو بھی جب جب موقع ملا بھرپور ہاتھ صاف کیے۔ پہلے کئی منٹوں تک تو ٹی وی اسکرین پر اسکور ہی نظر نہیں ا?رہا تھا، یعنی دیکھنے والا خود ہی حساب لگائے کہ ٹیم نے اب تک کتنے رنز بنالیے ہونگے، جب یہ مسئلہ ٹھیک ہوگیا تو ہماری علم کو اب یہ بات ا?ئی کہ عمر گل تیز گیند باز نہیں بلکہ وکٹ کیپر ہے۔اخبارات کے صفحات کالے ہوگئے ہیں یہ لکھتے ہوئے کہ ملک میں کرکٹ کی بحالی کے لیے کرکٹ بورڈ کو پہلے اپنے معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا اور خود کو پروفیشنل بورڈ کے طور پر منوانا پڑے گا۔ (جس کی امید ابھی دور دور تک نظر نہیں آ رہی)، بس پھر جب تک ایسا نہیں ہوگا تو بورڈ میں موجود عہدیدار اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ملکی سرمایہ اور قوم کا وقت یونہی برباد کرتے رہیں گے۔