جمعہ‬‮ ، 28 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

فرحت اللہ بابر نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت مطیع اللہ جان کے اغوا کی ویڈیو مانگی تو پھر انکے ساتھ کیا ہوا؟ سینئر صحافی کے تہلکہ خیز انکشافات

datetime 16  جنوری‬‮  2021 |

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اعزاز سید روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم ” نیا قانون” میں لکھتے ہیں کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا 21جولائی 2020 کواسلام آباد میں اغوا ہوا۔ تو کچھ ہی دیر میں اغوا کی سی سی ٹی وی وڈیو منظر عام پر آگئی۔وڈیو میں دیکھا جاسکتا

تھا کہ کس طرح مطیع اللہ جان کو وفاقی دارالحکومت میں سرعام مارتے کرتے ہوئے ایک گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ اغوا کی اس کارروائی میں باوردی پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں چند ملبوس افراد ملوث تھے۔اغوا کے بعد اس وڈیو نے پورے سماج پر گہرا تاثر چھوڑا۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور تقسیم شدہ میڈیا کے نمایاں چہرے اپنے اختلافات بھول کر میدان میں آگئے اور مطیع اللہ جان کے اغوا کے خلاف ہر پلیٹ فارم پرآواز اٹھانے لگے۔ شور اتنا اٹھا کہ چند گھنٹوں بعد ہی اغوا کاروں نے مطیع للہ جان کو رہا کردیا۔کچھ روز بعد پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما و سینیٹر فرحت للہ بابر کو نجانے کیا خیال آیا۔ انہوں نے معلومات تک رسائی کے قانون مجریہ 2017 کا سہارا لیا اور وزارت داخلہ و اسلام آباد پولیس کو درخواست دیدی کہ اس قانون کے تحت مطیع للہ جان کے اغوا کے وقت اسلام آباد کی شاہراہوں پر لگے سیف سٹی کیمروں کی وڈیو فوٹیج انہیں فراہم کردی جائے۔وزارت داخلہ کے

افسران اور اسلام آباد پولیس کے اس وقت کے آئی جی عامرذوالفقار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ معاملہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا پاکستان انفارمیشن کمیشن کے پاس پہنچ گیا۔پاکستان انفارمیشن کمیشن اسی قانون کے تحت قائم کیا گیا وہ ادارہ ہے جس میں پہلی بار تین کمشنرز،

چیف انفارمیشن کمشنر اعظم خان اور انفارمیشن کمشنرز زاہد عبدللہ اور فواد ملک ایڈووکیٹ تعینات ہیں۔ یہ کمیشن ان تمام درخواستوں کی سماعت کرتا ہے جن کو معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت وفاقی اداروں نے شرف پذیرائی نہ بخشا ہو اور عوام کو معلومات تک رسائی کے آرٹیکل 19 اے

کے تحت دئیے گئے آئینی حق سے محروم رکھا ہو۔اس قانون کی روح بھی یہی کہتی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والی ریاست کے بارے میں عام آدمی کو بھی معلومات فراہم کی جائیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر کی درخواست اس پلیٹ فارم پر پہنچی تو بھلا ہو کمیشن کے تینوں معزز ارکان کا

جنہوں نے قانون کی روشنی میں درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دیدیا مگر وزارت داخلہ کے عہدیداروں اور اسلام آباد پولیس نے قانون اورفیصلے کے اطلاق کے حوالے سے کچھ نہ کیا۔انفارمیشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو 7 جنوری 2021 کو

وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری نے شاید تادیبی کارروائی کے خوف سے اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کے ہمراہ کمیشن کے سامنے پیش ہوکر بتا دیا کہ جناب ہم اگلے 24 گھنٹوں کے اندر مذکورہ وڈیو فوٹیج معززدرخواست گزارکودے دیں گے۔وہ دن اور آج کا دن میں سینیٹر فرحت للہ بابر

اور وزارت داخلہ کے سینئر افسروں کو ہرروز اس امید سے فون کرتا ہوں کہ اب اس قانون پر اطلاق کا آغاز ہوا کہ ہوا؟ آج نجانے کیوں مجھے اپنی حالت سعادت حسن منٹو کے شہرہ آفاق افسانے نیا قانون کے کردار منگو کوچوان جیسی لگنے لگی ہے۔

موضوعات:



کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)


عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…