جمعہ‬‮ ، 18 اپریل‬‮ 2025 

فرحت اللہ بابر نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت مطیع اللہ جان کے اغوا کی ویڈیو مانگی تو پھر انکے ساتھ کیا ہوا؟ سینئر صحافی کے تہلکہ خیز انکشافات

datetime 16  جنوری‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اعزاز سید روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم ” نیا قانون” میں لکھتے ہیں کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا 21جولائی 2020 کواسلام آباد میں اغوا ہوا۔ تو کچھ ہی دیر میں اغوا کی سی سی ٹی وی وڈیو منظر عام پر آگئی۔وڈیو میں دیکھا جاسکتا

تھا کہ کس طرح مطیع اللہ جان کو وفاقی دارالحکومت میں سرعام مارتے کرتے ہوئے ایک گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ اغوا کی اس کارروائی میں باوردی پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں چند ملبوس افراد ملوث تھے۔اغوا کے بعد اس وڈیو نے پورے سماج پر گہرا تاثر چھوڑا۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور تقسیم شدہ میڈیا کے نمایاں چہرے اپنے اختلافات بھول کر میدان میں آگئے اور مطیع اللہ جان کے اغوا کے خلاف ہر پلیٹ فارم پرآواز اٹھانے لگے۔ شور اتنا اٹھا کہ چند گھنٹوں بعد ہی اغوا کاروں نے مطیع للہ جان کو رہا کردیا۔کچھ روز بعد پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما و سینیٹر فرحت للہ بابر کو نجانے کیا خیال آیا۔ انہوں نے معلومات تک رسائی کے قانون مجریہ 2017 کا سہارا لیا اور وزارت داخلہ و اسلام آباد پولیس کو درخواست دیدی کہ اس قانون کے تحت مطیع للہ جان کے اغوا کے وقت اسلام آباد کی شاہراہوں پر لگے سیف سٹی کیمروں کی وڈیو فوٹیج انہیں فراہم کردی جائے۔وزارت داخلہ کے

افسران اور اسلام آباد پولیس کے اس وقت کے آئی جی عامرذوالفقار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ معاملہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا پاکستان انفارمیشن کمیشن کے پاس پہنچ گیا۔پاکستان انفارمیشن کمیشن اسی قانون کے تحت قائم کیا گیا وہ ادارہ ہے جس میں پہلی بار تین کمشنرز،

چیف انفارمیشن کمشنر اعظم خان اور انفارمیشن کمشنرز زاہد عبدللہ اور فواد ملک ایڈووکیٹ تعینات ہیں۔ یہ کمیشن ان تمام درخواستوں کی سماعت کرتا ہے جن کو معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت وفاقی اداروں نے شرف پذیرائی نہ بخشا ہو اور عوام کو معلومات تک رسائی کے آرٹیکل 19 اے

کے تحت دئیے گئے آئینی حق سے محروم رکھا ہو۔اس قانون کی روح بھی یہی کہتی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والی ریاست کے بارے میں عام آدمی کو بھی معلومات فراہم کی جائیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر کی درخواست اس پلیٹ فارم پر پہنچی تو بھلا ہو کمیشن کے تینوں معزز ارکان کا

جنہوں نے قانون کی روشنی میں درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دیدیا مگر وزارت داخلہ کے عہدیداروں اور اسلام آباد پولیس نے قانون اورفیصلے کے اطلاق کے حوالے سے کچھ نہ کیا۔انفارمیشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو 7 جنوری 2021 کو

وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری نے شاید تادیبی کارروائی کے خوف سے اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کے ہمراہ کمیشن کے سامنے پیش ہوکر بتا دیا کہ جناب ہم اگلے 24 گھنٹوں کے اندر مذکورہ وڈیو فوٹیج معززدرخواست گزارکودے دیں گے۔وہ دن اور آج کا دن میں سینیٹر فرحت للہ بابر

اور وزارت داخلہ کے سینئر افسروں کو ہرروز اس امید سے فون کرتا ہوں کہ اب اس قانون پر اطلاق کا آغاز ہوا کہ ہوا؟ آج نجانے کیوں مجھے اپنی حالت سعادت حسن منٹو کے شہرہ آفاق افسانے نیا قانون کے کردار منگو کوچوان جیسی لگنے لگی ہے۔

موضوعات:



کالم



اگر آپ بچیں گے تو


جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…