طوفان نوح گزر جانے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر پہنچ کر ٹھہر گئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے روئے زمین کی خبر لانے کے لئے کبوتر کو بھیجاتو وہ زمین پر نہیں اترا بلکہ ملک سبا سے ایک زیتون کی ایک پتی چونچ میں لے کر آ گیاتو آپ نے فرمایا کہ تم زمین پر نہیں اترے اس لئے پھر جاؤ اور روئے زمین سے خبر لاؤ ۔تو کبوتر دوبارہ روانہ ہوا اور مکہ مکرمہ میں حرم کعبہ کی زمین پر اترااور
دیکھ لیا کہ پانی زمین حرم سے ختم ہو چکا ہے اور سرخ رنگ کی مٹی ظاہر ہو گئی ہے۔کبوتر کے دونوں پاؤں سرخ مٹی سے رنگین ہو گئے۔ اور وہ اسی حالت میں حضرت نوح علیہ السلام کے پاس واپس آ گیا اور عرض کیا کہاے خدا کے پیغمبر !آپ میرے گلے میں ایک خوبصورت طوق عطا فرمائیے اور مجھے زمین حرم میں سکونت کا شرف عطا فرمائیے۔چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے کبوتر کے سر پر دست شفقت پھیرا اوراس کے لئے دعا فرمائی کہ اس کے گلے میں دھاری کا ایک خوبصورت ہار پڑا رہے اور اس کے پاؤں سرخ ہو جائیں اور اس کی نسل میں خیر و برکت رہے اور اس کو زمین حرم میں سکونت کا شرف ملے۔کبوتر کی خاص عادت یہ ہے کہ اگر اس کو ایک ہزار میل کے فاصلے سے بھی چھوڑا جائے تو یہ اُڑ کر اپنے گھر پَہُنچ جاتا ہے نیز دُور دراز ملکوں سے خبریں لاتا اور لے جاتا ہے۔اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگرکبھی کسی کا پالتو کبوتر اور کسی جگہ پکڑا گیا اورتین تین سال یا اس سے بھی زیادہ مُدَّت تک اپنے گھر سے غائب رہا مگر باوُجُود اس طویل غیر حاضری کے وہ اپنے گھر کو نہیں بھولتا اور اپنی ثباتِ عقل ،قُوَّتِ حافِظہ اور کششِ گھر پر برابر قائم رہتا ہے اور جب کبھی اسے موقع ملتا ہے اُڑ کر اپنے گھر آجاتا ہے۔اگر کسی شخص کے اَعْضاء شل ہوجائیں یا لَقْوہ ، فالج کا اَثر ہو جائے تو ایسے شخص کو کسی ایسی جگہ جہاں کبوتر رہتے ہوں وہاں یا کبوتر کے قریب رہنا مفید ہے ،یہ کبوتر کی عجیب و غریب خاصیّت ہے ،اس کے علاوہ ایسےشخص کے لیے اس کا گوشت بھی فائدہ مند ہے۔
عجائب القرآن صفحہ 318
تفسیر صاوی جلد 3 صفحہ 912