حضرت علامہ شیخ محمد بن الباقی البزاز بیان کرتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں مجاور تھا۔ ایک دن ایسا آیا کہ کھانے کیلئے کچھ نہ ملا اور میں بھوک سے نڈھال ہو گیا۔ اسی حالت میں باہر نکلا تو راستے میں ایک تھیلی پڑی دیکھی۔ اٹھا کر دیکھی تو ریشمی تھیلی تھی اور ریشم کی ڈور سے بندھی ہوئی تھی۔ قیام گاہ پر لاکر کھولی تو دیکھا اس میں نہایت قیمت موتیوں کا ایک ہار ہے۔ میں بازار میں نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص رومال ہاتھ میں لئے پکار رہا ہے
کہ میری تھیلی جس میں موتیوں کا ہار تھا گم ہو گئی ہے۔ جو صاحب اس کا پتہ دیں گے ان کو شکریہ کے طور پر پانچ سو دینار انعام دوں گا جو اس رومال میں باندھے ہیں۔ میں اس شخص کو اپنے گھر لے آیا اور تھیلی نکال کر اس کے حوالے کی۔ وہ شخص بڑا ممنون ہوا اور حسب وعدہ پانچ سو دینار پیش کئے لیکن میں نے لینے سے معذرت کی اور کہا کہ میں نے یہ کام رضائے الٰہی کی خاطر کیا ہے۔ اجرت لے کر میں اپنا اجر ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ تاہم اس شخص نے ان کے قبول کرنے پر بہت زور دیا لیکن میں برابر انکار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ تنگ آ کر چلا گیا۔اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد میں نے مکہ معظمہ سے رخت سفر باندھا اور ایک سمندری جہاز پر سوار ہو گیا۔ بدقسمتی سے راستہ میں ایک خوفناک طوفان آ گیا۔ اور جہاز ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ میرے سوا سب مسافر ڈوب گئے۔ میرے بچنے کی یہ صورت ہوئی کہ ایک تختہ میرے ہاتھ آ گیا اور میں اس پر بیٹھ گیا۔ بہتا بہتا ایک جزیرے کے ساحل تک پہنچ گیا۔ حسن اتفاق سے اس جزیرے کے باشندے مسلمان تھے۔ میں وہاں کی مسجد میں ٹھہر گیا۔ لوگوں نے مجھ سے حال دریافت کیا میں نے ان کو اپنی تمام سرگزشت سنائی۔ ولگ یہ سن کر بہت متاثر ہوئے اور میرے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا۔
بہت سے لوگ مجھ سے قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کرنے لگے اور اپنے بچوں کو بھی نوشت و خواند سیکھنے کے لئے میرے پاس بھیجنے لگے۔ تھوڑی ہی مدت میں یہ لوگ مجھ سے بیحد مانوس ہو گئے اور مجھے اپنا مرشد سمجھنے لگے۔ وہ مجھے کافی مالی امداد بھی دیتے تھے اور دوسری کوئی خدمت کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے آپس میں کچھ مشورہ کیا اور پھر میرے پاس آ کر کہا کہ ہماری رائے یہ ہے
کہ آپ شادی کر لیں اور یہاں مستقل اقامت اختیار کر لیں۔میں نے کہا جیسے آپ لوگوں کی خوشی۔ چنانچہ انہوں نےبتایا کہ ہمارے یہاں ایک مالدار یتیم لڑکی ہے ہمارے خیال میں اس کیلئے آپ سے بہتر شوہر ملنا مشکل ہے۔ اگر آپ رضامند ہوں تو اس سے آپ کا نکاح کر دیں۔ میں نے رضامندی کا اظہار کیا اور میرا اس لڑکی سے نکاح ہو گیا۔ جب میں نے خلوت میں اپنی بیوی کو دیکھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہی تھیلی والا ہار اس کے گلے میں پڑا ہے۔
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ لڑکی اسی حاجی کی تھی جسے میں نے محض اللہکے لئے ہار واپس کر دیا تھا لوگوں نے مجھے بتایا کہ جب اس لڑکی کا باپ حج سے یہاں واپس آیا تھا تو اپنے قیمتی ہار کے گم ہونے او رپھر اس کے مل جانے کا واقعہ اکثر بیان کیا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ جس شخص نے یہ ہار مجھے واپس دیا۔ ایسا بے نفس آدمی میں نے دنیا میں نہیں دیکھا پھر وہ یہ دعا کیا کرتا تھا کہ
کاش اس کی مجھ سے یہاں ملاقات ہوتی تو میں اپنی لڑکی کا عقد اس سے کر دیتا۔ شیخ محمد بن البانیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرحوم حاجی کی دعا کو شرف قبولیت بخشی اور اس لڑکی کا عقد میرے ساتھ ہو گیا۔ اس بیوی سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ وہ اپنے والد کی تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی چند سال بعد وہ قضائے الٰہی سے فوت ہو گئی
اور اس ہار اور دوسری جائیداد کے وارث میرے بچے ہوئے خدا کی قدرت یہ بچے بھی کچھ عرصہ کے بعد انتقال کر گئے اور اس ہار اور جائیداد کا مالک میں بنا۔ اسی ہار کو میں نے ایک لاکھ دینار میں فروخت کیا پھر اللہ نے اس رقم میں اتنی برکت دی کہ میرے پاس مال و دولت کا کوئی حساب ہی نہ رہا۔