حضرت نظامُ الدین اولیاؒ کے پاس ایک تیرہ سالہ لڑکا اپنے باپ امیر سیفُ الدین مُحمود کے ساتھ آیا باپ بیٹے کو اندر لے جانا چاہتا تھا لیکن بیٹے نے اندر جانے سے انکار کر دیا اور باپ سے کہا۔ ” آپ اندر تشریف لے جائیں، میں یہیں باہر کھڑا آپ کا انتظار کرتا ہُوں۔
باپ نے مزید اصرار نہیں کیا بلکہ اندر چلا گیا۔ باپ کے جاتے ہی اُس تیرہ سالہ لڑکے نے فوراً ایک منظوم رقعہ لکھا ، اس میں فارسی کے دو شعر اسی وقت موزوں کیے تھے۔تو آں شاہی کہ برایوان قصرت کبوترگر نشیند باز گردوغریبے مستمند سے برور آمد بیاید اندروں یا باز گردو(تم بادشاہ ہو کہ اگر تمھارے محل پر کبوتر بیٹھے تو باز بن جائے ، ایک غریب حاجبمند دروازے پر باریابی کا منتظر ہے، وہ اندر آئے یا واپس جائے)منظوم رقعہ اندر گیا اور اسی وقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کا لکھا ہوا منظوم جواب آ گیا۔در آید گر بود مرد حقیقت کہ باما ہم نفس ھم راز گردواگر ابلہ بودآں مرد ناداں ازاں راہے کہ آمد باز گردو(اگر اُمید وار حقیقت شناس ہے تو اندر آ جائے اور ہمار ہم دم و ہمراز بنے اور اگر ابلہ و ناداںہے تو جس راہ سے آیا ہے ، اسی سے واپس جائے۔” )جواب پاتے ہی یہ تیرہ سالہ لڑکا اندر، خواجہ نظام الدّین اولیا کےپاس چلا گیا اور امیر خسرو ؒ کے نام سے شہرتِ دوام حاصل کی۔