اشفاق احمد کہتے ہیں کہ مدینے شریف میں ایک مرتبہ سندھ کے ایک ذائر سے ملاقات ہوئی۔جنہوں نے اپنی عمر کے پچیس چھبیس سال حرم کی سیڑھیوں پر گزار دئیے تھے۔ ہم نے پوچھا۔ سائیں،آپ بڑے خوش قسمت ہیں جو اس دربار میں حاضری دیتے ہیں۔ ہمیں فرمائیں کہ آپ یہاں کیا کرتے ہیں۔ “مسکرا کر کہنے لگے!” بابا ہم یہاں گرتے ہیں اور پھراٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر گرتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ غلطی کرتے ہیں اور معافی
مانگتے ہیں۔ معافی مل جاتی ہے تو پھر بھول چوک ہو جاتی ہے۔ پھر توبہ تلا کرتے ہیں، پھر رحم ہو جاتا ہے۔”ہم نے کہا، “سائیں ! یہ عجیب کیفیت ہماری سمجھ سے باہر ہے! “فرمایا،” بابا ! مومن کی شان یہی ہے کہ وہ گرے تو پھر اٹھ کر کھڑا ہو جائے، لغزش کھائےتو پھر اپنی جگہ پر قائم ہو جائے۔ مومن وہ نہیں ہوتا ہے جو کبھی ٹھوکر ہی نہ کھائے۔ غلطی ہی نہ کرے۔ مومن وہ ہوتا ہے کہ ٹھوکر کھائے لیکن پھر اپنی جگہ پر مستعد ہو جائے۔””