منگل‬‮ ، 22 جولائی‬‮ 2025 

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان: امریکہ کے بغیر بھی سعودی عرب کا وجود رہا ہے

datetime 9  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شروع شروع میں تو ہر کسی کو برا لگتا تھا کہ صدر ٹرمپ کیسی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ کبھی میڈیا کو گالی، کبھی یورپی یونین کو کہنی، کبھی چین کو جوتا، کبھی روس، ایران، شمالی کوریا کو فحش اشارے، کبھی پاکستان کے سر پہ ڈنڈا، کبھی کینیڈا کو ڈپٹنا، کبھی میکسیکو کی گوش مالی۔ پر اب دنیا ٹرمپ کی عادی ہے ۔زیادہ تر پر راز

کھل گیا ہے کہ ٹرمپ کی گالی گالی نہیں بلکہ ویسا رمز ہے جس میں پرائیز بانڈ کا نمبر چھپا ہوتا ہے۔ ان کے ہر ہر جملے میں سٹے کا اشارہ ہے، ہر دھمکی ایبٹ آباد کے بابے دھنکے کی چھڑی جیسی ہے کہ جسے لگ گئی اس کی قسمت کھل گئی۔مگر مجھے دو روز پہلے تک بھی یقین نہ تھا کہ ٹرمپ عالمی گلیوں میں گھومنے والا کوئی مست ہے۔ چنانچہ جب ٹرمپ نے کہا کہ اے سعودی شاہ میں تجھے پسند کرتا ہوں مگر امریکہ نہ ہو تو تو دو ہفتے بھی نہیں نکال سکتا۔ اس سے پہلے کہ بابا جلال میں آ ئے تیل کی قیمت کم کر دے ٹھاکر۔ پہلے تو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہ آیا۔ پھر میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ خوف کی لہر ریڑھ کی ہڈی میں گذر گئی ’یہ ٹرمپ نے کیا کیا، اس بار واقعی اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مار لی۔ اس نے ایک ایسے شہزادے کے والدِ گرامی کی توہین کی ہے جو ایک بار کمٹمنٹ کر لے تو اپنی بھی نہیں سنتا۔ٹرمپ بھلے سپر پاور کا حکمران سہی پر نہیں جانتا کہ ولیعہد محمد بن سلمان کون ہے۔ وہ کہ جس نے ایران نوازی کے شک میں پورے یمن کو خون تھکوا دیا۔ وہ کہ جس نے شیخ تمیم بن حماد التہانی سے منسوب صرف ایک جعلی تقیدی بیان پر اپنے امیر ترین ہمسائے قطر کو خلیج تعاون کونسل میں اچھوت بنا ڈالا۔

وہ کہ جس نے لبنان کے حاضر سروس وزیرِ اعظم سعد الحریری کو ایسے بلا کر ہفتوں مہمان بنایا کہ فرانسیسی صدر میکراں کو سفارش کر کے چھڑوانا پڑا۔ وہ کہ جس نے اپنے خاندان کے شہزادوں کو بدعنوانی پر الٹا لٹکا کے اربوں ڈالر نکلوا لئے۔ ایسے دبنگ کے آگے ٹرمپ جیسا منہ پھٹ کیا بیچتا ہے؟ہوگا جرمنی یورپ کا صنعتی انجن، پر یاد نہیں کہ جرمن وزیرِ خارجہ سگمر گیبرئیل نے پچھلے نومبر میں بس اتنا کہا تھا کہ سعودی عرب مشرقِ وسطی میں مہم جوئی کر رہا ہے۔

بس پھر کیا تھا سعودی سفیر برلن سے واپس، جرمن ہتھیاروں کا سودا منسوخ، جرمن کمپنیاں بلیک لسٹ، نیا جرمن سفیر ریاض میں اپنی سفارتی قبولیت کے لئے شاہی محل کی کال کے انتظار میں ہفتوں ایڑیاں رگڑتا رہا۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی نئے جرمن وزیرِ خارجہ ہیکو ماس نے نیویارک میں سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیر سے ’ماضی کی غلط فہمیوں‘ پر معذرت کی تب جا کے غیور سعودیوں کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔

مجھے واقعی یوں لگا کہ بھائی ٹرمپ نہ ٹی وی دیکھتے ہیں نہ اخبار پڑھتے ہیں ورنہ سعودی شاہی خاندان کے لئے حقارت آمیز الفاظ منہ سے نکالنے سے پہلے یہی سوچ لیتے کہ کینیڈا جیسی عالمی صنعتی طاقت کو سعودی عرب کیسے ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔کینیڈین وزیرِ خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے دو ماہ قبل صرف یہ ٹویٹ کیا تھا کہ سعودی حکومت انسانی حقوق کی کارکن سمر بداوی کو رہا کرے۔ ان کے بلاگر بھائی رائف البداوی پہلے ہی سعودی جیل میں دس برس کی قید بھگت رہے ہیں اور رائف کے بیوی بچے کینیڈا میں مقیم ہیں۔اس توہین آمیز ٹویٹ کے چمکتے ہی ریاض سے کینیڈا کے سفیر کا بوریا بستر فوراً گول۔

کینیڈا سے سعودی سفیر واپس، کینیڈا کی یونیوورسٹیوں میں زیرِ تعلیم سولہ ہزار سعودی طلبا و طالبات کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے کا حکم، دو طرفہ پروازیں معطل اور اقتصادی تعلقات منجمد۔ کینیڈا ٹویٹرانہ گستاخی پر معافی مانگنے کو تیار نہیں اور سعودی عرب معاف کرنے کا نہیں۔مجھے ٹرمپ پہ یہ سوچ سوچ کر ترس آنے لگا کہ اس بار اس ہوشیار دیوانے نے کسی پوتن، کم جونگ ان، علی خامنہ ای، شی جن پنگ کو نہیں ایسے جوانِ رعنا کی خاندانی غیرت کو للکارا ہے جو دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخیرے کا مالک ہے۔ دیکھنا ٹرمپ اب تیل کی ایک ایک بوند کو ترسے گا۔میں انتظار کرتا رہا کہ کب ریاض سے اعلان ہوتا ہے کہ جب تک وائٹ ہاؤس اس بیان سے لاتعلقی ظاہر نہیں کرتا

کہ سعودی بادشاہت امریکی مدد کے بغیر دو ہفتے بھی برقرار نہیں رہ سکتی تب تک کوئی سیاسی، سفارتی، اقتصادی اور دفاعی تعلق نہیں۔ تمام امریکی چوبیس گھنٹے میں سعودی سرزمین چھوڑ دیں۔ تمام سعودی شہری امریکہ سے نکل لیں۔ تمام امریکی بینکوں سے سعودی پیسے نکال لئے جائیں۔ اب تیل تب تک ڈالر کے بجائے یورو میں فروخت ہوگا جب تک ٹرمپ خود ریاض آ کر ناک سے لکیریں نہیں نکالتا۔مگر یہ کیا ؟ سعودی ولی عہد نے بلوم برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’مجھے ان کے ساتھ ( ٹرمپ ) کام کرنا پسند ہے۔

دوست ایک دوسرے کے لئے اچھی بری باتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔‘تب مجھ پر کھلا کہ حقیقت پسند عزت مآب سعودی ولی عہد بھی جانتے ہے کہ ’ گنوار کی گالی ہنس کے ٹالی۔‘ تب مجھ پر کھلا کہ اگر محمد بن سلمان بھی ٹرمپ کے بیان کو مجذوب کی بڑ سمجھتے ہیں تو پھر واقعی ٹرمپ ایک سچل مست ہے اور اس مست کے درجات کا کیا کہنا جس کا آستانہ وائٹ ہاؤس ہو۔ کوئی پاگل ہی ہوگا جو ایسے پہنچے ہوئے مجذوب کو چھیڑے یا پلٹ کے جواب دےسعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تنبیہ کو مسترد کر دیا ہے کہ ملک کی قیادت امریکی فوجی سہارے کے بغیر ‘دو ہفتے’ بھی نہیں چلے گی،

اور کہا ہے کہ ان کے ملک کا وجود امریکہ کے بغیر بھی رہا ہے۔امریکی اخبار بلومبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے ولی عہد کا کہنا تھا کہ ریاض واشنگٹن کو سعودی عرب کی سکیورٹی کے لیے احسان مند نہیں ہے اور ‘ہم نے امریکہ سے اسلحہ خریدا ہے، یہ ہمیں مفت میں نہیں دیا گیا‘۔اسی موقعے پر محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ‘مجھے ان کے ساتھ کام کرنا پسند ہے۔’اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی فوجی امداد کے بغیر سعودی عرب کے شہنشاہ سلمان اقتدار میں نہیں رہ سکیں گے۔

’ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ ’سعودی عرب کے پاس کھربوں ڈالر ضرور ہیں مگر ہمیں ان سے وہ نہیں ملتا جو ملنا چاہیے‘۔اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے محمد بن سلمان نے کہا کہ یہ امریکہ اور سعودی تعلقات میں ’99 اچھی چیزوں میں ایک بری چیز ہے۔’انھوں نے کہا: ‘سعودی عرب امریکہ سے پہلے بھی قائم تھا۔ اس کا قیام 1744 میں عمل میں آیا۔ میرے خیال سے امریکہ سے 30 سال پہلے۔ اور میرا خیال ہے کہ صدر اوباما نے اپنے آٹھ برسوں میں نہ صرف سعودی عرب بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے خلاف کام کیا۔

امریکہ ہمارے ایجنڈے کے خلاف تھا مگر پھر بھی ہم نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ بالآخر ہم کامیاب ٹھہرے اور اوباما کی قیادت میں امریکہ ناکام ہو گیا، مثال کے طور پر مصر میں۔’انھوں نے کہا کہ سعودی عرب امریکہ سے ہر چیز پیسوں سے خریدتا ہے، اور جب سے ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں، سعودی عرب نے اگلے دس برسوں تک امریکہ سے اپنی ضرورت کا 60 فیصد اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔33 سالہ سعودی شہزادے نے کہا کہ ٹرمپ کے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد سے سعودی عرب نے امریکہ سے 110 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے

اور دوسرے دو طرفہ معاہدوں اور سرمایہ کاری کی کل مالیت 400 ارب ڈالر بنتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ان معاہدوں میں یہ بھی شامل ہے کہ کچھ اسلحہ سعودی عرب میں تیار کیا جائے گا، جس سے امریکہ اور سعودی عرب میں ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘اچھی تجارت کا دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا اور یہ معاشی ترقی کے لیے بھی اچھا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے ہماری سکیورٹی کا تحفظ بھی ہو گا۔’

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وہ دن دور نہیں


پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…