حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعث
مشہور تھے بلکہ مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اور عمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اور طاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو میں یقینا فریاد کو پہنچوں گا اور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادر میں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کر
اس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟ پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیں
اور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اور تمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔
( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔
(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)