جمعرات‬‮ ، 12 دسمبر‬‮ 2024 

غریب لکڑہارے کا بیٹا جو بچپن میں اپنے باپ کیساتھ جنگل میں جاکر لکڑیاں اکٹھی کرتا اور انہیں بیچتا آج وہی لکڑہارے کا بیٹا 29ارب ڈالر سے زائد مالیت کی کمپنی کا مالک کیسے بنا

datetime 22  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

’انگوارکمپراڈ ‘‘ نامی اس شخص کی کہانی بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ سوئس ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انگوار کمپراڈ نے اپنی داستان اس طرح بیان کی کہ میں1926ء کو سوئیڈن کے جنوب میں واقع سمالانڈ نامی علاقے میں پیدا ہوا ۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو گھر میں غربت کا بسیرا تھا ۔ میرے والد قریبی جنگلات سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور انہیں بیچ کر بچوں کا پیٹ پالتے تھے ۔ بچپن سے ہی میرے دل میں تجارت کا شوق تھا ۔

اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے میں نے5 سال کیعمر سے ہی اپنے والد کے ساتھ جھاڑیوں سے سرکنڈے لا کر اسکول کے بچوں کو فروحت کرنا شروع کیا ۔ بچے ان سرکنڈوں سے قلم بناتے تھے ۔ جب میری عمر7 برس ہوئی تو میں نے خود قلم بنا کر فروخت کرنے شروع کر دیئے ۔ اس کے بعد میرے والد نے میرے لیے ایک تین پہیوں والی لکڑی کی سائیکل بنائی ۔ جس پر میں جنگل سے سرکنڈے لاد کرگھر لاتا اور قلم بنا کر قریبی اسکولوں کے باہر اسٹال لگاتا ۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے میں اپنے اسکول کے اخراجات چلاتا تھا ۔ تاہم اس معمولی آمدنی سے تعلیمی سلسلے کومزید آگے بڑھانا میرے لئے مشکل ہوگیا تو12 سال کی عمر سے میں اپنے والد کے ساتھ باقاعدہ جنگل سے لکڑیاں لانے کا کام شروع کیا ۔ تاہم ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی ۔ میں اپنے والد کے ساتھ جنگل جاکر عمارتی لکڑیاں لاکر بازار میں فروخت کرتے اور اسی پرہمارا پورا گھرانہ پلتا رہا ۔ جب میری عمر17 برس ہوئی تو میرے والد کے پاس کچھ پس انداز کی ہوئی کچھ رقم تھی ، جسے انہوں نے میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اس رقم سے تم اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھو ۔ مگر مجھے تعلیم سے زیادہ تجارت سے لگاؤ تھا ، اسی لئے میں نے علاقے میں ایک چھوٹی سی دکان کھولی ۔

جس میں مقامی جنگلات سے لائی جانے والی لکڑیوں کی فروخت کا سلسلہ جاری کیا۔ ابتدا میں میرے والد بھی جنگل سے لکڑیاں لا کر میری دکان میں فروخت کرتے ، تاہم کچھ عرصے کے بعد ہماری معاشی حالت اس قابل ہوگئی کہ میں اپنے کاروبار سے گھر کی اخراجات چلانے لگا اور میرے والد کی مشقت سے جان چھوٹ گئی ۔ ابتدا سے جانے کیوں میرے دل میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ ایک دن بڑی کاروباری شخصیت بن جاؤں گا ۔

اپنے اس خواب کو پورا کرنے کے میں نے اپنی اس چھوٹی سی دکان کانام ’’ایکیا‘‘ رکھا اور اسے بطور ایک کمپنی متعارف کرنے لگا ۔ ’’ایکیا‘‘ کے دو حروف میرے اپنے نام کو حصہ ہیں۔ جبکہ ایک حرف اس جنگل کے نام سے لیا گیا ہے جہاں سے ہم باپ، بیٹا لکڑیاں لایا کرتے تھے اور ایک حروف میرے پیدائشی علاقے سے منسوب ہے ۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ’’ایکیا‘‘ بعد میں ایک بین الاقوامی کمپنی بن جائے گی ۔

انگوار کمپراڈ کے بقول’’ رفتہ رفتہ میرا کاروبار پھیلنے لگا تو1948 ء میں میں نے اپنی دکان کے ساتھ فرنیچر کی تیاری کا کام بھی شروع کیا ۔ میرے وہم و گمان سے زیادہ پذیرائی ملی ، میرے ہاں تیار ہونے والا فرنیچر ہاتھوں ہاتھ خریدا جانے لگا تو مجھے اس کام کو بڑھانا پڑا اور1959 ء تک میرا کام اتنا پھیل گیا تھا کہ میری کمپنی میں سو سے زائد کاریگر کام کرنے لگے ، جس کے بعد میں نے اپنے قریبی قصبے میں ایک شوروم بھی کھولا ،

دکان سے تیار ہونے والا فرنیچر کو شہر میں بھی پذیرائی ملی ، میرے کام کی عمدگی کو دیکھتے ہوئے ،1960 ء میں سویڈن میں تعمیر ہونے والے ایک ہوٹل نے اپنے لئے فرنیچر کی بکنگ کرائی۔ جس کے بعد پورے ملک میں میرے ہاں بننے والا فرنیچر شہرت کی بلندیو ں پر پہنچ گیا۔ جب بیرون ملک سے بھی ڈیمانڈ آنےلگی تو میں نے1963 ء کو ناروے میں بھی اپنی ایک برانچ کھول لی ۔ پھر1969 ء میں ڈنمارک اور1973 ء میں سوئٹزر لینڈ میں بھی شاخیں کھول لیں ۔

اب دنیا کے تمام براعظموں کے43 ممالک میں میری کمپنی کی شاخیں قائم ہیں ۔ جبکہ اس فرنیچر کمپنی کی کئی ذیلی کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں ۔1976 ء سے میں سوئٹزرلینڈ میں رہائش پذیر ہوں اور میری کمپنی ہالینڈ میں بھی رجسٹرڈ ہے ۔ انگوارکمپراڈ کا کہنا ہے کہ ’’میرا عملی تجربہ ہے کہ جو شخص اپنے کام میں دلچسپی کے ساتھ بھرپور محنت کرے اور ایمانداری سے اپنے کام میں میعار پیدا کرے ، اس کی ترقی میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔88 سالہ انگوارکمپراڈ کا کہنا ہے کہ ’’ میں اب بھی روزانہ اپنی کمپنی کے مقامی شاخ میں کام کرتا ہوں ، اس وقت میری کمپنی کے اثاثوں کی مالیت29 ارب ڈالر سے زائد ہے ۔ مگر مجھے اب بھی سائیکل کی سواری پسند ہے اور اپنے بچپن کی وہ تصویریں بھی میرے پاس محفوظ ہیں، جب میں سائیکل پر سرکنڈےلایا کرتا تھا۔ انگوار کے بقول ’’ میں اپنی غربت کے دن کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس لئے میں اب بھی پیدل چلتا ہوں اور بازار سے اپنی ضروریات کی خریداری بھی خود کرتا ہوں ‘‘

موضوعات:



کالم



ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں


شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…