1930ء سے قائد اعظم محمد علی جناحؒ تپ دق کے شکار چلے آرہے تھے اور یہ بات صرف ان کی بہن اور چند دیگر ساتھیوں کو معلوم تھی۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اس کا اعلان عوام میں نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ انہیں سیاسی طور پر نقصان دے سکتی تھی۔ 1938ء میں اپنے ایک حامی کو خط میں وہ لکھتے ہیں”تم نے اخبار میں میرے دوروں کے بارے میں پڑھا ہوگا۔۔میں اپنی خرابی صحت کی وجہ سے اپنے دوروں
میں بے قاعدگیوں کا شکار تھا جس کی وجہ میری خراب صحت تھی”۔کئی سال بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ اگر انہیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی خرابی صحت کا معلوم ہوتا تو یقینا وہ انکی موت تک انتظار کرتے اور اس طرح تقسیم سے بچا جاسکتا تھا۔ فاطمہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ بعد میں لکھتی ہیں کہ،” قائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنے کامیابیوں کے دور میں بھی سخت بیمار تھے۔۔وہ جنون کی حد تک پاکستان کو سہارا دینے کے لئے کام کرتے رہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے اپنی صحت کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا”۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنے میز پر کراؤن اے سگریٹ اور کیوبا کا سگار رکھتے تھے اور پچھلے تیس سال میں انہوں نے سگریٹ نوشی بہت ذیادہ کردی تھی۔ گورنمنٹ ہاوس کراچی کے پرائیویٹ حصے میں وہ لمبے وقفے آرام کے واسطے لینے لگے تھے اور فاطمہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ذاتی عملے کو ہی ان کے قریب رہنے کی اجازت تھی۔جون 1948ء میں وہ اور فاطمہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کوئٹہ روانہ ہوئے جہاں کی ہوا کراچی کے مقابل سرد تھی۔ وہاں بھی انہوں نے مکمل آرام نا کیا بلکہ انہوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے آفسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا “آپ دیگر افواج کے ساتھ پاکستان کے لوگوں کی جانوں، املاک اور عزت کے محافظ ہیں”۔ وہ یکم جولائی کو کراچی روانہ ہوئے جہاں انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جلسے سے خطاب
کیا،اسی شام کینیڈا کے تجارتی کمیشن کی جانب سے آذادی کے حوالے سے منعقد تقریب میں شرکت کی جو انکا آخری عوامی جلسہ ثابت ہوا۔6 جولائی 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ واپس کوئٹہ روانہ ہوئے اور ڈاکٹروں کے مشورے پر آپ مزید اونچے مقام زیارت منتقل ہوئے۔اس دوران میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا مسلسل طبعی معائنہ کیا گیا اور انکی طبعی نزاکت دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بہترین ڈاکٹروں کو ان کے
علاج کے لئے روانہ کیا۔مختلف ٹیسٹ ہوئے جنہوں نے ٹی بی کی موجودگی اور پھیپھڑوں کے سرطان کا بتایا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو ان کی صحت کی جانکاری دی گئی اور انھیں ڈاکٹروں کو اپنی حالت کے حوالے سے آگاہ رکھنے کا کہا گیا نیز فاطمہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو بھی انکا خیال رکھنے کا کہا گیا۔انھیں اس دور کے نئے “معجزاتی دوائی “سٹریپٹو مائیسن دی گئی لیکن کچھ افاقہ نا ہوا۔ لوگوں کی نماز عید میں انکے
لئے کی گئی خصوصی دعاؤں کے باوجود انکی صحت برابر گرتی رہی۔انہیں آزادی سے ایک دن قبل 13 اگست کو کم اونچے مقام کوئٹہ لایا گیا انہوں نے اس دن کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا۔ان کا اسوقت وزن گر کر محض 36 کلو رہ گیا تھا ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ اگر اس حالت میں انہیں کراچی زندہ حالت میں لے جایا گیا تو تب بھی وہ کم عرصہ ہی زندہ رہ پائیں گے۔لیکن قائد اعظم محمد علی جناحؒ کراچی جانے پر تذبذب کا شکار تھے
،وہ نہی چاہتے تھے کہ ان کے معالج انہیں بے کار اسٹریچر پر بیٹھا معزور خیال کریں۔9 ستمبر کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو نمونیا نے آگھیرا۔ اب ڈاکٹروں نے انہیں کراچی کا مشورہ دیاجہاں وہ بہتر علاج کر سکتے تھے اور ان کی رضامندی پر وہ 11 ستمبر کو کراچی رونا ہوئے۔ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر الہٰی بخش کا اندازا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی کراچی جانے کی رضامندی انہیں اپنے زندگی سے مایوس ہونے کی وجہ سے تھی۔ جب اس طیارے نے کراچی میں لینڈنگ کی تو فوراً قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو ایک ایمبولیس میں لٹایا
گیا۔لیکن یہ ایمبولینس راستے میں خراب ہو گئی تب تک قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقاءمتبادل ایمبولینس کا انتظار کرتے رہے، انہیں کار میں بھٹایا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ وہ سیدھے بیٹھنے کی حالت میں نا تھے۔وہ لوگ شدید گرمی میں وہاں انتظار کرتے رہےاور ان کے سامنے سے گاڑیاں اور ٹرکیں گزرتی رہی جنہیں اس قریب المرگ شخص کی پہچان نا تھی۔ایک گھنٹے کی انتظار کے بعد ایک ایمبولینس پہنچی اور قائد
اعظم محمد علی جناحؒ کو سرکاری گھر میں منتقل کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ صبح کے 10:20 منٹ پر اپنے کراچی گھر میں 11 ستمبر 1948ء کو پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد انتقال کر گئے۔