جرمنی کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ارب پتی ’’ایلڈی ڈسکاؤنٹ سپرمارکیٹ‘‘ کا جانشین ’’برتھولڈالبریکت‘‘ 58 سال کی عمر میں گزشتہ دنوں انتقال کرگیا۔ البریکت فیملی سے تعلق رکھنے والے برتھولڈ اور اس کے بھائی ’’تھیوجونیئر‘‘ کی مشترکہ دولت کا تخمینہ تقریباً 18 ارب ڈالر ہے اور یہ خاندان جرمنی کا دوسرا امیرترین خاندان ہے، جبکہ جرمنی کا پہلا امیرترین شخص کارل البریکت بھی اس کا چچا ہے۔
جو 25 ارب ڈالر کی دولت کے ساتھ جرمنی کا امیرترین شخص ہے۔ البریکت فیملی کی یہ کامیابی جس نے اسے نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا کے امیرترین خاندانوں میں شامل کیا، اس کی کہانی ایک چھوٹے سے کریانہ اسٹور سے شروع ہوتی ہے۔ جسے 1913ء میں ایک خاتون نے جرمنی کے شہر ایسن کے مضافاتی علاقہ شون بیک میں کھولا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان تھی، جس سے عام افراد روزمرہ کے استعمال کی چیزیں خریدتے تھے۔ دکان دار خاتون نہ صرف اپنے گاہکوں کے ساتھ احترام سے پیش آتی، بلکہ اشیا بھی مناسب قیمت پر بیچتی تھی۔ اس کے دو بیٹے تھے: ’’کارل البریکت‘‘ اور ’’تھیو البریکت‘‘۔البریکت فیملی کی یہ کامیابی جس نے اسے نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا کے امیرترین خاندانوں میں شامل کیا، اس کی کہانی ایک چھوٹے سے کریانہ اسٹور سے شروع ہوتی ہے۔ جسے 1913ء میں ایک خاتون نے جرمنی کے شہر ایسن کے مضافاتی علاقہ شون بیک میں کھولا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان تھی، جس سے عام افراد روزمرہ کے استعمال کی چیزیں خریدتے تھے۔’’تھیوالبریکت‘‘ نے اپنی ماں کی دکان میں ہی کام کیا، جبکہ کارل نے ایک تیار کھانے بیچنے والی دکان میں کام شروع کیا۔ بعدازاں دوسری جنگ عظیم کے بعد دونوں بھائیوں نے مل کر اپنی ماںکی دکان سنبھال لی۔ محنت اور ماں کی کاروباری تربیت رنگ لائی اور جلد ہی انہوںنے قریبی علاقے میں ایک اور
کریانہ اسٹور کھول لیا۔ 1950ء تک دونوں بھائی 13کریانہ اسٹور کھول چکے تھے۔یہ اس وقت ایک بڑی کامیابی تھی اور اس کامیابی کے پیچھے ایک زبردست کاروباری حکمت عملی تھی۔ فروخت کردہ اشیا پر ڈسکاؤنٹ دینا یورپ میں ایک زبردست کاروباری تکنیک تھی، لیکن ڈسکاؤنٹ کا طریقہ یہ تھا کہ خریداروں کو پہلے ڈسکاؤنٹ کوپن جمع کرنے ہوتے اور پھر ایک مخصوص وقت کے بعد دکاندار کو واپس بھیجنا ہوتے۔ اس طرح نہ صرف
قت ضائع ہوتا بلکہ خریداروں کی دلچسپی بھی ختم ہوجاتی اور یوں وہ ایک یقینی فائدے سے بھی محروم ہوجاتے۔ ’’البریکت بھائیوں‘‘ نے ایک بالکل اچھوتا کام کیا اور وہ یہ کہ خریداروں کو اشیا کی خرید پر فوری ڈسکاؤنٹ دینا شروع کردیا۔ جس سے ان کی سیل میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ انہوںنے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنی دکانوں کا سائز کم رکھ کر اور دکان کو اضافی بناوٹی خرچ یعنی ڈیکوریشن خرچ سے بھی محفوظ
رکھا۔ ساتھ ہی تشہیری اخراجات کے بغیر نہایت سادگی ا ور راست بازی سے خریداروں کو انتہائی کم داموں میں اشیا فروخت کرنے لگے۔ اس طرح ان کی غیرمعمولی کاروباری حکمت عملی اور محنت سے لوگ ان کی طرف متوجہ ہونے لگے اور خریداروں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہونے لگا۔ یوں اپنے خاندانی نام البریکت اور ڈسکاؤنٹ کو جمع کرکے انہوںنے ایلڈی (Albrecht-Discount) کے نام سے 1961ء میں پہلا جنرل
اسٹور کھولا۔ اس طرح ڈسکاؤنٹ اور انتہائی مناسب قیمت کی پالیسی نے ان کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیے۔ دونوں بھائیوں نے مل کر باقاعدہ کمپنی قائم کردی اور یوں ان کے کریانہ اسٹور سے جنرل اسٹور تک کا سفر سپرمارکیٹ کی شکل اختیار کرگیا۔ کچھ عرصے میں ان کے اسٹوروں کی تعداد بڑھ کر 300 ہوگئی۔ کاروباری حکمت عملی اور کچھ تنازعات کے باعث دونوں بھائیوں نے اپنا اپنا بزنس الگ کرلیا اور یوں
تھیوالبریکت نے شمالی اور کارل البریکت نے جنوبی علاقوں میں اپنا کاروبار پھیلانا شروع کردیا اور آج ایلڈی گروپ کے دنیابھر میں 8000 سے زائد ڈسکاؤنٹ سپراسٹور کامیابی سے چل رہے ہیں۔کم قیمت اور ڈسکاؤنٹ پالیسی کے ساتھ ساتھ ALDI اپنی مصنوعات پر ڈبل گارنٹی بھی دیتا ہے۔ یعنی اگر آپ خریدی گئی پروڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں تو نہ صرف آپ وہ پروڈکٹ نہایت آسانی سے تبدیل کرسکتے ہیں، بلکہ اگر چاہیں تو آپ کو آپ
کی پوری رقم واپس بھی مل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے آج ایلڈی اسٹورز کا دائرہ کار جرمنی سے بڑھ کر بیلجیم، نیدرلینڈ، فرانس، اسپین، ڈنمارک، امریکا، آسٹریلیا اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ 1993ء میں دونوں بھائی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے اور ایک خطیر رقم فلاحی اداروں کو دے دی۔ تھیوالبریکت کا انتقال 2010ء میں 88 سال کی عمر میں ہوا جو حال ہی میں انتقال کرجانے والے ’’برتھولڈالبریکت‘‘ کے والد
تھے۔ جبکہ برتھولڈالبریکت مرحوم کے چچا ’’کارل البریکت‘‘ اس وقت نہ صرف جرمنی کے امیرترین شخص ہیں بلکہ وہ دنیا کے امیرترین افراد کی فہرست میں بھی دسویں نمبر پر ہیں۔ البریکت فیملی کی اس کاروباری کامیابی کی بنیاد صرف چار اصولوں پر ہے:محنت:کاروباری دیانت:ناجائز منافع سے پاک کم قیمت اشیاکی فراہمی:خرچ شدہ رقم کا بہترین نعم البدل اور تحفظ: ان چار اصولوں پر عمل کرکے کوئی بھی کاروباری شخص
اپنے کاروبار کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی دے سکتا ہے اور امیرترین افراد کی صف میں خود کو شامل کرسکتا ہے۔ ان 4 انتہائی سادہ اصولوں پر عمل کرنے کے لیے کسی اعلیٰ ڈگری کی ضرورت ہے نہ کسی کاروباری گُر کی۔ ضرورت ہے تو صرف حرص اور ناجائز منافع خوری سے بچنے کی۔ آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں، خواہ آپ کسی شہر میں رہتے ہوں یا دیہات میں۔ آپ کو ایسے کتنے جنرل اسٹور ملیں گے، جن کی 100
نہ سہی تو 50 ہی سے زائد شاخیں ہوں۔ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہم ایک دکان سے ترقی کرتے ہوئے ہزاروں دکانوں کے مالک بن جائیں تو پھر ہمیں اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ خریدار کے فائدے اور اطمینان کو بھی اہمیت دینا ہوگی۔ اگر ہم کاروباری دیانت داری پر عمل پیرا ہوجائیں تو کریانہ اسٹور سے سپرمارکیٹ کا سفر بہت دشوار نہیں ہے۔