دجال کو جھوٹا مسیح یا جھوٹا خدا بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر مسلمان کا اس بات پر ایمان ہے کہ دجال اپنی طاقت اور فریب کے زریعے تباہی لائے گا۔حضرت محمد ﷺ دنیا کے سب سے قابل اور جاننے والی شخصیت ہیں۔ آپﷺ نے دجال کی کئی واضح نشانیاں بتائی ہیں۔ جبکہ مغرب میں اسے ‘اینٹی کرائسٹ’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو دنیا بھر میں اپنے شعبدوں سے تباہی پیدا کرے گا۔نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق دجال
کا ظہور قیامت سے پہلے اور دنیا کے آخری دنوں میں ہوگا۔ اس کا مقصد دنیا سے اسلام اور اسکے پیروکاروں کو ختم کرنا ہونا۔دجال اللہ کے ماننے والوں کو اپنی بندگی پر مجبور کر کے انہیں جہنم میں دھکیلنے کیلئے آئے گا۔دجال کے فتنے سے بچنے کیلئے نبی کریم ﷺ نے بارہا اس کی نشانیوں سے آگاہ کیا اور واضح بتایا کہ دجال کیسا دکھے گا اور اس کی نشانیاں کیا ہوں گی۔آپ ﷺ نے فرمایا دجال ایک آنکھ سے کانا ہوگا، وہ ایک جگہ نہیں رکے گا ، اس کی رنگت سرخی مائل سفید ہوگی۔ اس کی پیشانی نمایاں اور گردن بہت زیادہ چوڑی ہوگی۔ اس کا قد چھوٹا ہوگا اور کمر میں کبھ ہوگا۔ اس کے باوجود وہ بہت طاقتور ہوگا۔ وہ عام انسانوں کی طرح نہیں چل سکے گا۔دجال کے گھنگریالے بال ہوں گے جو سر سے سانپوں کی مانند لٹک رہے ہوں گے۔ دجال ایک مرد ہوگا اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگا۔ اس کی پیشانی پر دونوں آنکھوں کے بیچ کافر یا ک،ف،ر لکھا ہوگا۔درج بالا نشانیوں کی وضاحت ذیل میں کی گئی ہے۔(۶۳۱)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِؐ : ((الدَّجَّالُ اَعْوَرُ العَیْنِ الیُسْرَیٰ، جُفَالُ الشَّعَرِ، مَعَہُ جَنَۃٌ وَنَاٌر، فَنَارُہُ جَنَّۃٌ وَجَنَّتُہُ نَارٌ)) [م(۶۶۳۷)، جہ (۱۷۰۴) ]ترجمہ: حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اس کے بال گھنے ہوں گے، اس کے ساتھ جنت اور جہنم بھی ہو گی، اس کی جہنم حقیقت میں جنت ہو گی، اور اس ی جنت حقیقت میں جہنم ہو گی۔حدیث: حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا مجھے دجال سے
بھی اس بات کا زیادہ علم ہے کہ اس کے ساتھ کیا چیزیں ہوں گی؟ اس کے ساتھ دو جاری نہریں ہوں گی، ان میں سے ایک دیکھنے میں سفید پانی کی ہو گی اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ کی ہو گی، اگر کوئی شخص وہ زمانہ پائے تو اسے چاہیئے کہ اس نہر پر جائے جو دیکھنے میں آگ نظر آ رہی ہو گی، اور اس میں غوطہ لگا دے، پھر اپنا سر جھکا کر اس میں سے پیئے، وہ ٹھنڈا پانی ہو گا، اور دجال کی ایک آنکھ پونچھ دی
گئی ہو گی، اس پر موٹا ناخنہ ہو گا، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا، جسے ہر مؤمن پڑھ لے گا خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔[م (۷۶۳۷)، خ (۰۵۴۳)، د(۵۱۳۴)]تشریح: اس حدیث کی تشریح میں سب سے پہلے تو دجال کی آنکھوں کی کیفیت کوو اضح کرنا مقصود ہے،۔اس سلسلے میں اتنی بات تو متعین ہے کہ دجال ایک آنکھ سے کانا ہو گا، اسی وجہ سے عوام میں وہ’کانے دجال’ کے نام سے ہی مشہور ہے، اسی
طرح یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اس کی دوسری آنکھ انگور کے دانے کی طرح پھولی ہوئی ہو گی اور اس کی پلکوں کے پاس گوشت کا اُبھرا ہوا چھوٹا سا ٹکڑا ہو گا، لیکن یہ بات متعین نہیں ہے کہ وہ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا یا بائیں آنکھ سے، اسی طرح اس کی پھولی ہوئی آنکھ کون سی ہو گی؟ احادیث کی روشنی میں اسے متعین کرنا خاصا مشکل ہے کیونکہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اور ایک حدیث میں
فرمایا گیا ہے کہ وہ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اسی بنا پر اس کی دوسری آنکھ کی کیفیت بھی متعین کرنا دشوار ہے۔ چنانچہ بعض علماء نے دائیں آنکھ والی روایات کو ترجیح دی ہے اور بعض علماء نے بائیں آنکھ والی روایت کو ترجیح دی ہے، اس ناکارہ کا رجحان اسی دوسری رائے کی جانب ہے جس کے مطابق دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اکثر روایات میں بھی یہی آتا ہے، اس طرح یہ بات خود بخود متعین ہو جاتی ہے کہ اس کی دائیں
آنکھ پھولی ہوئی ہو گی، جسے بعض روایات میں انگور کے دانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور بعض روایات میں اسے موٹے ناخنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حدیث میں ایک اضافی بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس کے بال خوب گھنے ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ دجال کی ان عیب دار آنکھوں کے درمیان اللہ تعالیٰ اس کے دجل و فریب اور جھوٹ کو ثابت کرنے کیلئے اس پر لفظ کافر لکھ دے گا، دراصل احادیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی
ہے کہ دجال ابتدائی طور پر رسالت کا اور پھر خدائی کا دعوٰی کرے گا، یہ عجیب خدا ہو گا جو ایک آنکھ سے کانا اور دوسری سے بھینگا ہو گا یعنی اس میں اتنی بھی طاقت نہ ہو گی کہ اپنے جسم کے اتنے بڑے اور نمایاں عیب ہی کو دور کر سکے ، اس لیے اس کا خدائی کا دعویٰ کرنا کسی مذاق سے کم نہ ہوگا۔ایسا نہ ہو گا کہ وہ لفظ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گا، بلکہ پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ساتھ ان پڑھ لوگ بھی اسے پڑھ
سکیں گے، دجال کی پیشانی پر موجود لفظِ کافر دنیا کا کوئی صابن اور کیمیکل نہ مٹا سکے گا،۔البتہ یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے، ایک تو یہ کہ بعض روایات میں دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ’کافر’ حروفِ تہجی کے ساتھ الگ الگ کر کے لکھنے کا تذکرہ ملتا ہے یعنی یہ لفظ اس طرح’ک ف ر’ لکھا ہو گا، اور بعض روایات میں حروفِ تہجی ملا کر ‘کافر’ لکھے ہونے کا ذکر ہے۔تاہم معنی دونوں صورتوں میں ایک
ہی ہو گا، اور دوسری بات یہ کہ کیا یہ لفظ حقیقتاً اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یا حدیث میں اس کا مجازی معنی مراد ہے؟ اس سلسلے میں بھی علماء کی دو رائیں ہیں، بعض علماء اس کا مجازی معنی مراد لیتے ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ دجال اکبر کے چہرے پر ہی ایسی علامات ہوں گی جن سے اس کا حادث ہونا ثابت ہوتا ہو گا، ان علامات کو لفظِ کافر سے ذکر فرما دیا گیا ہے ، لیکن اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ کتابت اپنے
حقیقی معنی میں ہی ہے، اور حقیقی طور پر اس کی آنکھوں کے درمیان لفظِ کافر لکھا ہو گا، اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے کہ اس کے کفر اور اس کے جھوٹ کی واضح علامت اس کے چہرے پر ہی نمایاں فرما دے، تا کہ ہر آدمی اسے شناخت کر سکے، اس کے جھوٹا اور کافر ہونے کا یقین کر سکے اور اس کے فتنے سے اپنے آپ کو بچائے۔تیسری قابل وضاحت بات دجالِ اکبر کی جنت اور جہنم سے متعلق ہے، اللہ تعالیٰ
جب کسی کو ڈھیل دیتا ہے تو اس کی رسی خوب دراز کر دیتا ہے اور جب اسے سزا دینے کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اس رسی کو کھینچ لیتا ہے، دجالِ اکبر جب خدائی کا دعویٰ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ڈھیل دے گا، حتی کہ دجال اپنے ساتھ جنت اور جہنم کو لیے پھرتا ہو گا، جب کسی پر اپنا انعام کرنا چاہے گا تو اسے اپنی جنت میں داخل کر دے گا، جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جہنم ہو گی، اور جب کسی کو سزا دینا چاہے گا تو اسے اپنی
جہنم میں داخل کر دے گا، بظاہر وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہو گی لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی جنت ہو گی، لوگ جب اس کے ساتھ جنت اور جہنم کو دیکھیں گے تو خوفزدہ ہوں گے اور اس پر ایمان لانے لگیں گے، خاص طور پر جب وہ یہ دیکھیں گے کہ جن لوگوں نے دجال کو اپنا رب نہیں مانا، دجال نے انہیں بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر کر دیا، وہ مزید مرعوب ہو جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جس چیز کو جنت سمجھ رہے ہوں گے،
وہ ان کی نظر یا ان کی سوچ کا دھوکہ اور غلط فہمی ہو گی، حقیقت میں وہ جہنم ہو گی اور جس چیز کو لو گ جہنم سمجھ رہے ہوں گے ، وہ ان کی غلط فہمی ہو گی اور ان کی نظر کا دھوکہ ہو گا، حقیقت میں وہ جنت ہو گی۔ اسی لیے نبیؐ نے فرمایا اگر کسی آدمی کو دجال کا زمانہ مل جائے اور وہ آزمائش میں پڑ جائے تو اسے چاہیے کہ بے کھٹکے دجال کی جہنم میں چھلانگ لگا دے، وہ آگ اس کیلئے اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی
بن جائے گی جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام کیلئے بن گئی تھی اور اسے اس سے کچھ نقصان نہ ہوگا، لیکن اگر وہ اس کی جنت میں کود گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے بہت گھاٹے کا سودا کیا، اور وہ خسارے میں پڑ گیا۔رہی یہ بات کہ کیا واقعی دجال کے ساتھ جنت اور جہنم ہوں گے، یا یہ نعمت و راحت اور سزا و تکلیف سے کنایہ ہے؟ سو اس سلسلے میں محدثین نے دو رائیں اختیار کی ہیں، جن محدثین نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے
، ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے دجال کو جس جنت اور جہنم پر حکم چلانے کا موقع عطا فرمائے گا، اس کی ظاہری اور بیرونی حالت تو دجال کی خواہش کے مطابق ہی رہے گی لیکن اندرونی اور حقیقی کیفیت اس کے برعکس ہو گی، اس لیے نبیؐ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ اس موقع پر انسان اپنی آنکھوں پر اعتماد نہ کرے، بلکہ نبیؐ کے حکم پر اعتماد کرے، اپنی بصارت کو ایک طرف رکھ دے اور ایمانی بصیرت
سے کام لے، اور بعض محدثین نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے ، ان کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ دجال کو رب مان کر اس پر ایمان لے آئیں گے، دجال ان پر اپنے انعام و اکرام کی بارش برسا دے گا، یوں ان کی دنیا بھی جنت بن جائے گی، تاہم آخرت میں اس عیاشی کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہ ہو گا، اور جو لوگ دجال کو اپنا رب ماننے سے انکار کر دیں گے، دجال انہیں طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کر دے گا جس کی وجہ سے یہ
دنیا ہی ان کیلئے جہنم بن جائے گی، لیکن دنیا کی ان تکلیفوں کا انجام آخرت میں جنت کے سوا کچھ نہیں ہو گا، اس لیے انسان کو چاہیے کہ بصارت کی بجائے اس موقع پر بصیرت سے کام لے تا کہ دنیا میں بھی سرخرو ہو اور آخرت میں بھی اس کا انجام اچھا ہوا۔ واللہ اعلم