۱)قربانی کےایام یوم النحر کے علاوہ بقیہ تین دن یعنی ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ قربانی کے ایام ہیں۔اس بارے میں جمہورِ اہلِ علم کی دلیل سیدناجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ :” کل أيام التشريق ذبح “[1] ۔اس روایت کی سند میں تمام رجال ثقات ہیں۔ البتہ راوی سلمان بن موسیٰ کا سماع (سننا)صحابی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح ابن حبان میں بھی یہی روایت نقل کی ہے۔ لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے یعنی عبد الرحمٰن بن ابی حسن کا سماع سیدناجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔اگرچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے معرفۃ السنن میں اس انقطاع کا ذکر نہیں کیا۔[2] نیز حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے۔”وحجة الجمهور حديث جبير بن مطعم رضي الله عنه رفعه (کل فجاح منیٰ منحر وکل ايام التشريق ذبح) اخرجه احمد لکن فی إسناده انقطاع ووصله الدارقطنی ورواته ثقات”.[3]’’ یعنی اس حدیث کو متصل سند کے ساتھ امام دارقطنی نے روایت کیا اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں یوں تعدد طرق کے سبب سے اس روایت کو محققین کی ایک جماعت نے قبول کیا ہے۔ مثلاًامام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں”فقال الشافعي يجوز في يوم النحر وايام التشريق ثلاثة بعده ومن قال بهذا علي ابن ابي طالب وجبير بن مطعم وابن عباس رضي الله عنهم وعطاء والحسن البصري وعمر بن عبد العزيزوسليمان موسیٰ الأسدي فقيه أهل الشام وداؤود الظاهري”.[4]یعنی امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب، جبیر بن مطعم، ابن عباس رضی اللہ عنہم ،اور سیدناحسن بصری ، عمر بن عبد العزیز سلیمان موسیٰ الاسدی اور داؤد ظاہری رحمہم اللہ جمیعاً یہ سب چار دن کی قربانی کے قائل ہیں۔
جبکہ فتح الباری میں اہل شام کے امام امام اوزاعی رحمہ اللہ کا نام بھی مذکور ہے نیز امام ابن المنذر رحمہ اللہ نےبھی اس تحقیق کو اختیار کیا ہے۔مزید شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب الاختیارات میں لکھا ہے۔”ذبح الأضحية آخر أيام التشريق وهو مذهب الشافعب واحد قولی أحمد”.یعنی قربانی ایام تشریق کے آخری دن تک ہے۔یہی موقف امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ
کے دو قول میں سے ایک قول چوتھے دن کی قربانی کا ہے۔نیز زاد المعاد میں علامہ امام ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔امام ابن حزم رحمہ اللہ نے محلّٰی میں حنفیہ کے اس دعوے پر کہ تین دن کی قربانی کا مسئلہ اجماعی مسئلہ ہے کی تردید میں پہلےفقط تین دن کی قربانی سے متعلقہ ان آثار پر اصولی نقد کیا ہے اور پھر اپنا مؤقف بیان کیا ہے، وہ فرماتےہیں:
” عن علي النحر ثلاثةأيام”.یعنی علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے قربانی تین دن ہے اس کی سند میں ابن ابی یعلیٰ سيئ الحفظ جبکہ منہال متکلم فیہ ہے۔مالک بن ماعز یا ماعز بن مالک نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ان کے والد نے جنابِ عمر رضی اللہ عنہ سے سنا “إنما النحر في هذه الثلاثة الايام”’’ یعنی قربانی تین دن ہے۔ اس کی سند میں باپ اور بیٹا جو اس اثر کو جنابِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں
مجہول ہیں‘‘۔ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:” أيامالنحر ثلاثة أيام”. یعنی قربانی تین دن ہے۔ اس کی سند میں ابو حمزہ ضعیف راوی ہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:” الأضحی يوم النحر ويومان بعده”. اس کی سند بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اسماعیل بن عیاش اور عبد اللہ بن نافع یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ان آثار کے بارے میں حنفی امام علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ بھی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں
“روي عن عمر وعلي وابن عباس انهم قالوا أيام النحر ثلاثة أفضلهاأولها۔ قلت غريب جداً “.کہ سیدنا عمر، علی اور ابنِ عباس سے مروی شدہ آثار ہیں کہ قربانی کے تین دن ہیں ، میں یہ کہتا ہوں کہ ” غریب جدا “۔ یہ تو بہت ہی غریب ہیں ۔انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”الاضحی ثلاثة أيام”۔ قربانی تین دن ہے۔اس کی سند صحیح ہے لیکن ایک تو یہ صحابی کا قول ہے،
مرفوع روایت نہیں نیز اس میں زیادتی کی نفی نہیں ہے۔اس کے بعد وہ لکھتے ہیں”وان کان هذا إجماعًا فقد خالفه عطاء وعمر بن عبد العزيز والحسن البصری والزهري أبو مسلمة بن عبد الرحمن وسليمان بن يسار وأف لکل إجماع خرج عنه هولاء “.[5]’’ یعنی اگر اس مسئلہ میں اجماع ہوتا ( کہ قربانی صرف تین دن ہے ) تو امام عطاء (امام ابوحنیفہ کے استاذ) اور سیدنا عمر بن عبد العزیز ،
امام حسن بصری، امام زہری ابو مسلمہ اور سلیمان بن یسار رحمہم اللہ جیسے نامور ائمہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔ سو ایسا اجماع جس کی مذکورہ ائمہ جیسے مخالفت کریں وہ انتہائی قابلِ رحم وقابلِ افسوس ہے‘‘ (یعنی یہ دعوی اجماع باطل ہے)۔صاحبِ نیل الاوطار امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ میں ترجیح چار دن کی قربانی کو دی ہے ۔ جیساکہ انہوں نے فیصلہ کن انداز میں لکھا ہے
“أرجحها المذهب الأول للأحاديث المذکورة في الباب وهي يقوی بعضها بعضًا”.[6]یعنی اس مضمون میں مذکورہ احادیث کی روشنی میں مذہبِ اول راجح ہے کیونکہ وہ تمام احادیث ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔شیخ البانی رحمہ اللہ بھی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:”والصواب عندي أنه لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد التي قبله ولاسيما وقد
قال به جمع من الصحابة کما في شرح مسلم للنووي”.[7]یعنی میری تحقیق کے مطابق یہ روایت شواہد کی وجہ سےحسن درجہ سے کم نہیں ہےنیز صحابہ کی ایک جماعت بھی اس کی قائل ہے جیساکہ نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس کی وضاحت کی ہے۔مزید صاحب مرعاۃ المفاتیح علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ بھی اسی موقف کے حق میں ہیں۔دورِ حاضر کے معروف
محققینِ حدیث شیخ عبد القادر الارنائووط اور شیخ شعیب الارنائووط بھی یہی تحقیق رکھتے ہیں جیساکہ شیخ امین اللہ صاحب حفظہ اللہ نے فتاویٰ الدین الخالص میں ذکر کیا ہے۔سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی (لجنۃ دائمہ) نے بھی اپنے فتوے میں تحریر کیا ہے: “ينتهي الذبح بغروب الشمس اليوم الرابع فی اصح اقوال أهل العلم”۔ [8]قربانی کا انتہائی وقت چوتھے دن کے غروبِ آفتاب تک ہے۔
اہل الحدیث علماء ِ کرام میں اکثر فتاویٰ نویس کے فتاویٰ بھی مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں یہی ہیں۔شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً سے اس موضوع پر سوال کیا گیاتو شیخ رحمہ اللہ کا یہی جواب تھا کہ:روایت میں ضعف ہے لیکن چونکہ اس کی متعدد سندیں ہیں جس میں بعض کا ضعف بعض سے زائل ہوجاتا ہے اور مجموعی طور پر روایت قابل عمل ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کچھ اہلِ تحقیق کا موقف قربانی کے حوالے سے صرف تین دن کا ہی ہے ان کے پاس بھی دلیل ہے جو کتب میں مذکور ہے۔