پاکستان کے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ کشمیر کو انگریزوں سے خریدنے والا سکھ راجہ گلاب سنگھ، بچپن میں گلابو تھا اور جن دنوں لاہور میں رنجیت سنگھ کی حکومت تھی گلابو جہلم میں تین روپیہ مہینہ پر برتن دھونے پر
ملازم تھا۔ گلابو کا ایک بھائی دھیان سنگھ لاہور کے سکھ دربار میں راجہ کے خاص ملازموں میں شامل تھا۔ دھیان سنگھ نے اپنے بھائی کو جہلم سے لاہور بلوالیا کہ یہاں اس کی زندگی سدھر جائے گی۔ اس دوران میں دھیان سنگھ نے بڑی ترقی کی۔ پہلے فوج میں جرنیل مقرر ہوا اور بعد میں رنجیت سنگھ کا وزیر بن گیا۔گلابو کی قسمت کا ستارہ بھی چمکا۔ اب وہ گلابو سے گلاب سنگھ تھا اور راجہ کے ملازمین خاص میں شامل، گلاب سنگھ بعد میں ترقی کرکے راجہ کی فوج میں جرنیل بن گیا۔ اس نے ہمالیہ کے دامن میں واقع بودھوں کی عبادت گاہوں پر متعدد حملے کئے اور ہر حملہ میں سونا، چاندی، جواہرات اور دوسرے قیمتی پتھر بٹور کر لاتا رہا۔ اس طرح اس نے بے اندازہ دولت جمع کرلی۔ جنرل ہارڈنگ نے جب سکھ دربار سے تاوان جنگ طلب کیا تو وہاں خزانہ خالی نکلا۔ اس وقت جنرل کو خیال گزرا کہ گلاب سنگھ کے ہاتھ اگر کسی طرح کا سودا ہوجائے تو لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹروں کو اچھی خاصی رقم مہیا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کشمیر کی ریاست جو 80 ہزار مربع میل پر مشتمل دنیا کا حسین ترین خطہ ہے، ایک حقیر رقم کے عوض فروخت کردی گئی۔ سکھ دربار میں اس وقت مختلف دھڑے تھے اور بعض لوگ اس سودے کے حق میں نہیں تھے۔