رب کائنات کے ساتھ عشق ہو اور سفر آخرت سہل نہ ہو ، انعام و اکرام کی بارشیں نہ ہوں، قبر جنت کے باغ کا منظر پیش نہ کریں، ایسا ہو نہیں سکتا، حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تم ایک قدم میری طرف بڑھو میں تم سے زیادہ تیزی سے تم سے زیادہ فاصلہ تم تک طے کروں گا۔ اپنی مخلوق کی ہدایت کیلئے رب کائنات نے اپنے محبوب اور آخری رسول محمد مصطفیٰﷺ کے ذریعے اپنی
آخری ہدایت نازل کی ، یہ کامیابی اور راحت و سکون کا نسخہ کیمیا تا قیامت مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے رب کائنات کے کلام برحق سے مزین ہے اور عشق الٰہی اور کیا ہو سکتا ہے کہ بندہ خالق برحق کی ہر بات کی تصدیق زبان اور عمل سے کرے اور پھر اس کے خوبصورت اور بے بہا اجر کا وعدہ بھی رب کائنات نے کر رکھا ہے۔ اپنے وعدوں کو بھی رب کائنات اپنی مخلوق کی ہدایت کیلئے سامنے لاتا رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہندوستان میں ایک بڑے بزرگ مولانا تمیز الدین صاحب کے ساتھ پیش آیا۔ ایک مرتبہ ایک گاؤں سے گزر رہے تھے کہ گاؤں کے لوگ جمع ہیں اور سامنے کسی آدمی کا جنازہ رکھا ہے۔ منشی صاحب وہیں کھڑے ہوگئے‘ لوگوں نے کہا: ’’منشی صاحب آپ جنازہ پڑھائیں‘‘ منشی صاحب نے کہا میں نہیں پڑھاتا۔ گھر سے پیغام آیا کہ منشی صاحب ہی پڑھائیں گے لوگوں نے اس آدمی کی بیوی سے پوچھا کہ منشی صاحب کا نام تم نے کیوں لیا تو اس نے کہا: یہ آدمی جو فوت ہوا ہے اس نے فوت ہونے سے پہلے کہا تھا کہ میراجنازہ منشی صاحب پڑھائیں۔ لوگوں نے کہا: آج اتفاق سے آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہماری بات پوری ہوگئی۔ منشی صاحب نے جنازہ پڑھایا۔ اپنے ہاتھوں سے اس میت کو قبر میں اتارا‘ دفن کیا اور چلے گئے۔ جب دفتر میں پہنچے جیب میں دیکھا تو ملازمت کا کارڈ غائب تھا۔
خیال آیا کہ جب میں نے اس بزرگ کو قبر میں اتارا تو وہ کارڈ بھی قبر میں گرگیا۔ ملازمت کا مسئلہ تھا‘ اسی وقت واپس آئے‘ گاؤں کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ انہیں ابھی ابھی دفن کیا ہے‘ میری ملازمت کا مسئلہ ہے تھوڑا سا مٹی کو ہٹاؤ تاکہ میں اپنا کارڈ اٹھالوں۔ سب لوگ جمع ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ منشی صاحب بڑے اللہ والے ہیں‘ کوئی بات نہیں۔ مٹی کو ہٹایا‘ جب اس کے کفن
کے قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ساری قبر گلاب کے پھولوں سے بھری پڑی ہے۔ منشی صاحب کو اپنی ملازمت بھول گئی۔ سیدھے اس عورت کے گھر گئے اور جاکر کہا کہ اماں بتاؤ: یہ جو بزرگ تھا اس کا عمل کیا تھا‘ بوڑھی عورت نے عجیب بات کہی‘ اس نے کہا: یہ تو ان پڑھ تھے ‘ زبانی انہوں نے چندسورتیں یاد کررکھی تھیں لیکن لکھنا آتا تھا نہ پڑھنا۔مجھے
اس کے نکاح میں آئے پینتالیس سال ہوگئے ہیں۔ ایک کام یہ روزانہ کرتے تھےکہ جب صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوجاتے تو قرآن سامنے رکھ لیتے اور اس کی سطروں پر انگلی رکھ کر کہتے اے اللہ! تو نے یہ بھی سچ کہا‘ یہ بھی سچ کہا‘ یہ بھی سچ ۔