اس حادثے میں کچھ لوگ بال بال بچ گئے کیونکہ ان کو چھوٹے موٹے کام پڑے جس کے لیے وہ ٹوئن ٹاور سے مجبوراً باہر نکلے۔ دراصل یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جس کی موت کا جو وقت لکھا گیا، اس کی موت اسی مقررہ گھڑی پر آنی ہے۔ ایک بڑی کمپنی کا ہیڈ اس لیے بچ گیا کہ اس کے چھوٹے بیٹا کا ’کنڈر گارڈن‘ میں پہلا دن تھا اور وہ خود اسے چھوڑنے گیا تھا۔وہ آفس سے لیٹ ہو گیا
اور بال بال بچ گیا۔ ایک آدمی کی گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی اور وہ ’ڈونٹس ‘لینے جا رہا تھا۔ اس کی گاڑی نے سٹارٹ ہونے میں اتنا وقت لے لیا کہ جب جہاز بلڈنگ سے ٹکرائے تو وہ نیچے اپنی گاڑی کو کوسنے میں مصروف تھا۔ ایک سیکٹری خود کو کوس رہی تھی کیونکہ اس سے کپڑوں پر کھانا گر گیا تھا اور اسے نکل کر باہر ڈرائی کلینر کی دکان کارخ کرنا پڑا۔ واپس آئی تو بلڈنگ ایک بھیانک منظر پیش کر رہی تھی۔ ایک آدمی کا بچہ بہت سست تھا اور وہ سکول کے لیے تیار ہونے میں تا خیر کر رہا تھا۔وہ آدمی صبح وقت پر آفس نہیں پہنچ سکا اور اپنی ناگہانی موت سے بچ گیا۔ ایک اس لیے لیٹ ہو گیا کہ اس کو ٹیکسی نہیں مل رہی تھی، وہ بھی بچ گیا۔ جو آدمی میرے میڈیکل سٹور پر آیا تھا، اس نے نئے جوتے خریدے تھے ۔ ا س کے وہ جوتے اسے تنگ تھے اور اس کی وجہ سے اس کے پاؤں چھل گئے تھے۔ وہ میری دکان پر آکر رکا تاکہ سنی پلاسٹ خرید لے اور اس طرح وہ اس بلاسے بچ گیا۔ جب سے یہ واقعہ ہوا ہے میں یہ سوچنے لگا کہ اگر میرے بچے سکول کے لیے تیار ہونے میں کوئی تاخیر کر دیں، یا مجھے کوئی فون آجائے، یا مجھے سٹور پر پہنچنے کے لیے ٹیکسی نہ ملے، یا میرے کپڑے خراب ہو جائیں،
یا میرے سے کوئی لفٹ مس ہو جائے تو کسی چھوٹی سے بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے اتنا چڑ جاتا تھا مگر اس دن جب وہ آدمی اپنے لیے پٹی لے کر گیا۔ اور کچھ وقت بعد جب میڈیا کے زریعے مجھے باقی لوگوں کی کہانیاں معلوم پڑیں تو میں سمجھ گیا کہ خدا اپنا کام کر رہا ہے۔ وہ اپنی پلیننگ کرتا ہے اور ہم انسان اپنی پلیننگ کرتے ہیں۔
جب ہماری پلیننگ کے مطابق چیزیں نہیں چلتیں تو ہم چڑ جاتے ہیں مگر حقیقت واضح ہے کہ ہو گا وہی جو وہ چاہتا ہے۔ تو اگر میں دو منٹ کے لیے کہیں پھنس جاتا ہوں اور سٹور تھوڑی دیر سے کھولتا ہوں تو اس سے جو وقت ضائع ہوا ، اس میں کوئی بہتری پنہاں تھی۔ میں نے اپنی زندگی کا یہی موٹو بنا لیا ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے، کہیں رک جاؤں ،
پھنس جاؤں تو پریشان نہیں ہونا بلکہ اس بات کو بخوبی سمجھنا ہے کہ سب خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی گیم بہت اچھے سے کھیلتا ہے۔ وہ جو بھی کر رہا ہے اس سے سب ٹھیک ہی ہو گا۔ دنیا مکافات عمل ہے، جب آپ کسی کا برا کرتے ہو تو خدا آپ کا برا کرتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ بڑا ذہین ہے اوہ سب کچھ ٹھیک کر لے گا سچی بات تو یہ ہے کہ انسان کی تو کوئی اوقات ہی نہیں،
تین منٹ کے لیے اس کو آکسیجن نہ مل پائے تو مرا پڑا ہو۔ تو کہاں گئی وہ طاقت، قوت اور وہ ذہانت۔ اپنی پلیننگ ضرور کرو مگر جب بھی کسی چیز میں کوئی خلل پڑ جائے تو اس کو سر پر مت سوار کرو۔ جو ہوا، وہی ہونا تھا۔ انسان ہر جگہ مار اس لیے کھاتا ہے کہ نصیب سے زیادہ اور وقت سے پہلے ہر شے حاصل کرنا چاہتا ہے۔بہت عام سی بات ہے مگر بالکل کھرا سچ ہے۔۔۔نصیب اپنا اپنا