اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)2008کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ افغانستان کی صورتحال امریکہ کے ہاتھوں سے نکلی جا رہی تھی جبکہ پاکستان میں بھی دہشتگردی اپنے پنجے گاڑے کھڑی تھی۔ اس صورتحال میں عالمی تھانیدار کا کردار ادا کرنے والا امریکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر نظر جمائے بیٹھا تھا۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے
طاغوتی اور استعماری طاقتوں خصوصاََ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں۔ پاکستان پر ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے امریکہ نے ہمیشہ دبائو رکھا اور وہ کونسی ایسی کوشش نہیں جس سے پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے مجبور نہ کیا گیا ہو۔ مگر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا خوف ہمیشہ اسے ایسا کرنے سے روکتا رہا۔اسی طرح کے ایک منصوبے سے متعلق ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 11مارچ 2009ء کو چیئرمین امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن سمیت اوبامہ انتظامیہ کے اہم عہدیداروں کے سامنے اپنی پری زینٹیشن کے دوران ’افغانستان اِنٹر ایجنسی پالیسی ریویو‘کے چیئرمین بروس رِڈل نے کہا کہ ہم نے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی انتہائی آپشن کو بھی سامنے رکھا اور ظاہر ہے کہ اِس آپشن کو فوراً مسترد کردیا کیونکہ ایک ایسے ملک پر حملہ کرنا جس کے پاس درجنوں ایٹمی ہتھیار ہوں پاگل پن سے بھی آگے کی چیز ہے۔ اور اس پر سب نے اتفاق کیا۔واضح رہے کہ اس وقت جب افغانستان میں پاکستان امریکہ اتحادی کے طور پر کردار ادا کر رہا تھا حملے کا جواز نہ تھا اور اس وقت ایک ایسا منصوبہ امریکی اعلیٰ عہدیداروں کے سامنے ڈسکس ہونا اس کی بدنیتی کا ثبوت ہے۔