تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گورنر جنرل غلام محمد کے پاس سرکاری باورچی تھا جو گریڈ 14 کے سرکاری اہلکار کی تنخواہ پاتا تھا۔ تاہم کھانے اور مشروبات کے تمام اخراجات گورنر جنرل اپنی ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے البتہ کراکری گونر جنرل ہاؤس کی ملکیت تھی جس کی پشت پر سبز رنگ کا سٹیکر لگا ہوتا تھا جس پر ’’حکومت پاکستان‘‘ درج ہوتا تھا۔ گورنر جنرل ہاؤس میں سرکاری تقریبات کے دوران آرمی کے باورچی اور بیرے منگوائے جاتے تھے جو تقریب کے بعد واپس یونٹوں میں چلے جاتے تھے۔
غلام محمد جب زیادہ بیمار ہوئے تو ان کی خوراک ’’سوپ‘‘ تک محدود ہو کر رہ گئی چنانچہ باورچی خانے میں ہر وقت مختلف دیگچوں میں مختلف قسم کے سوپ تیار پڑے رہتے تھے، جنہیں گورنر جنرل کو پلانے کی ذمہ داری ان کی سوئس سیکرٹری مس روتھ بورل کی تھی۔ وہ بڑے اہتمام سے سوپ ٹرے میں رکھتی غلام محمد کی ’’وہیل چیئر‘‘ کے نزدیک لاتی۔ اے ڈی سی فوراً گورنر جنرل کے سامنے چھوٹی سی میز رکھتا، مس بورل ٹرے اس پر جما کر غلام محمد کے سینے پر سفیر براق نیپکن پھیلاتی اور پھر چینی کی نفیس چمچ کے ساتھ گورنر جنرل کو سوپ پلانے لگتی۔ فالج کے بعد گورنر جنرل سوپ پینے کی زیادہ تر ’’استطاعت‘‘ کھو چکے تھے لہٰذا سوپ کا زیادہ حصہ ان کے نیپکن پر آ گرتا اور ہر چمچ کے بعد گورنر جنرل کی سوپ میں لتھڑی بانچھیں اور ٹھوڑی صاف کرنا بھی مس روتھ بورل کے فرائض میں شامل تھا جسے وہ بڑی نفاست سے نبھاتی تھی۔ گورنر جنرل کے علاوہ مس روتھ بورل، اس کی بوڑھی والدہ اور باورچی غلام محمد کے کچن سے کھانا کھاتے تھے جبکہ کسی دوسرے رکن مملکت یا گورنر جنرل ہاؤس کے ملازم کو کچن سے کوئی چیز حاصل کرنے کی سختی سے ممانعت تھی، جس پر باورچی سختی سے کاربند رہتا تھا لیکن اس کے باوجود ماہ کے آخر میں جب غلام محمد بلوں کی پڑتال کرتے تو باورچی کو بلا کر ضرور ڈانٹتے تھے۔
اس دوران ان کا موقف عموماً یہ ہوتا تھا کہ چار افراد کا جن میں ایک تقریباً معذور، دوسرا بوڑھا (مس بورل کی والدہ) ایک سمارٹ خاتون جو پیٹ بھر کر کھانے کی عادی نہیں اور ایک سوکھے سڑے باورچی کے کھانے کا بل اتنا زیادہ کیسے آ سکتا ہے؟ اس کا مطلب ہے تم، وہ باورچی کو مخاطب کرتے، ہاں تم اپنی سرکاری ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے اور دوسرے لوگ کچن میں گھس کر ’’گورنر جنرل آف پاکستان‘‘ کے کھانے کی اشیاء چوری کرتے رہتے ہیں۔
اس دوران باورچی لاکھ صفائیاں پیش کرتا لیکن غلام محمد فریق مخالف کی بات سننے کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ یوں ایک آدھ گھنٹے کی یہ یک طرفہ ڈانٹ اس حکم پر ختم ہوتی کہ باورچی آئندہ مزید احتیاط سے کام لے گا۔ اس دور کے اکثر ملازمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ لنچ ٹائم پر گورنر جنرل کچن کا اچانک دورہ بھی کیا کرتے تھے تاکہ ان لوگوں کو موقع پر واردات پر پکڑ لیں جو ان کے کھانے کی اشیاء چوری کرکے کھا جاتے ہیں، لیکن انہیں عموماً ناکام ہی لوٹنا پڑتا تھا۔
سرکاری تقریبات کے دوان جب آرمی کے باورچی آتے اور تمام سامان خور و نوش حکومت فنڈ سے خریدا جاتا تھا تو گورنر جنرل اپنے باورچی کو سختی سے ہدایات کرتے تھے کہ وہ بچ جانے والا کھانا فریج میں محفوظ کر لے اور آئندہ پورا ہفتہ وہ لوگ یہی کھانا کھائیں گے۔ ان تقریبات میں گورنر جنرل کے لیے خصوصی طور پر سوپ تیار ہوتا تھا جس کی اچھی خاصی مقدار وہ محفوظ کرا لیتے تھے اور پھر دنوں تک پیتے رہتے۔
اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔ ’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی، یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔ رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا،
وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔