74 ہجری میں جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ حج کے لئے تشریف لے گئے تو ایک شخص کے نیزہ کی نوک جو زہر میں بھجی ہوئی تھی ان کے پاؤں میں چبھ گئی۔ یہ زہر ان کے جسم میں سرایت کر گیا اور یہی زخم ان کی وفات کا باعث ہوا۔ عام مورخین کا خیال ہے کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہ تھا بلکہ حجاج کے اشارہ سے آپ کو زخمی کیا گیا تھا۔
البتہ اس کی تفصیل میں اختلاف ہے۔ مستدرک الحاکم کی روایت یہ ہے کہ حجاج نے جب خانہ کعبہ میں منجنیق نصب کروائی اور ابن زبیرؓ کو شہید کرایا تو اس کا یہ فعل شنیع ابن عمرؓ کو سخت ناپسند ہوا۔ آپ نے اس کو بہت برا بھلا کہا، حجاج غضبناک ہو گیا اور اس کے اشارے سے شامیوں نے زخمی کر دیا۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ عبدالملک نے حجاج کو ہدایت کی تھی کہ وہ ابن عمرؓ کی مخالفت نہ کرے یہ حکم اس پر بہت شاق گزرا لیکن حکم عدولی بھی نہیں کر سکتا تھا، اس لئے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور آپ کو زخمی کر دیا۔ حضرت ابن عمرؓ کو مدینہ منورہ میں وفات پانے کی بہت تمنا تھی، چنانچہ جب آپ کی حالت نازک ہوئی تو دعا کرتے تھے کہ خدایا! مجھ کو مکہ میں موت نہ دے۔ آپ نے اپنے صاحبزادے سالم کو وصیت کی کہ اگر میں مکہ ہی میں مر جاؤں تو حدود حرم کے باہر دفن کرنا کیونکہ جس زمین سے ہجرت کی ہے اسی کی پیوند خاک ہوتے اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ وصیت کے چند دنوں بعد سفر آخرت کیا اور علم و عمل اور اتباع سنت کا یہ آفتاب تاباں ہمیشہ کیلئے روپوش ہو گیا۔وفات کے بعد وصیت کے مطابق لوگوں نے حرم کے باہر دفن کرنا چاہا مگر حجاج نے مداخلت کر کے خود ہی نماز جنازہ پڑھائی اور مجبوراً مہاجرین کے ’’فخ‘‘ نامی قبرستان میں دفن کئے گئے۔