ابن عمرؓ اپنی تعریف سننا سخت ناپسند کرتے تھے، ایک شخص ان کی تعریف کر رہا تھا، انہوں نے اس کے منہ میں مٹی جھونک دی اور کہا آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ مداحوں کے منہ میں خاک ڈالا کرو، اپنے لئے معمولی انسانوں سے زیادہ شرف گوارا نہ کرتے تھے.
ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا تم سبط ہو تم وسط ہو۔ فرمایا سبحان اللہ سبط بنی اسرائیل تھے اور امت وسط پوری امت محمدی ہے، ہم تو مضر کے درمیانی لوگ ہیں۔ اس سے زیادہ اگر کوئی رتبہ دیتا ہے تو جھوٹا ہے، بلاامتیاز ہر کس و ناکس کو سلام کرتے بلکہ اسی ادارہ سے گھر سے نکلتے تھے۔ طفیل بن کعب جو روزانہ صبح و شام ان کے ساتھ بازار جایا کرتے تھے، بیان کرتے تھے کہ ابن عمرؓ بلا امتیاز تاجر، مسکین، خستہ حال سب کوسلام کرتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا آپ بازار کیوں جاتے ہیں حالانکہ نہ خرید و فروخت کرتے ہیں نہ کسی جگہ بیٹھتے ہیں، فرمایا صرف لوگوں کو سلام کرنے کی غرض سے۔ اتفاق سے اگر کسی کو سلام کرنا بھول جاتے تو پلٹ کر سلام کرتے، تواضح کا ایک مظہر حلم بھی ہے۔ ابن عمرؓ تلخ سے تلخ باتیں سن کر پی جاتے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ کو گالیاں دینا شروع کیں، آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ میں اور میرے بھائی عالی نسب ہیں پھر خاموش ہو گئے۔