ابن عمرؓ ان تمام امتیازات کو جن سے مساوات میں فرق آتا ہو ناپسند فرماتے تھے، چنانچہ جہاں لوگ آپ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے وہاں نہ بیٹھتے، اپنے غلاموں کو بھی مساوات کا درجہ دے دیا تھا اور ان کو عزت نفس کی تعلیم دیتے تھے، عام دستور تھا کہ غلام تحریر میں پہلے آقا کا نام لکھتا، پھر اپنا۔
انہوں نے اپنے غلاموں کو ہدایت کر دی کہ جب مجھے خط لکھو تو پہلے اپنا نام لکھو، غلاموں کو دسترخوان پر ساتھ بٹھاتے، ایک مرتبہ دسترخوان بچھا ہوا تھا، ادھر سے کسی کا غلام گزرا تو اس کو بھی بلا کر ساتھ بٹھایا، غلاموں کے کھانے پینے کا خیال بال بچوں کی طرح رکھتے ہیں، ایک مرتبہ ان لوگوں کے کھانے میں تاخیر ہو گئی، خانساماں سے پوچھا، غلاموں کو کھانا کھلا دیا، اس نے نفی میں جواب دیا برہم ہو کر فرمایا جاؤ ابھی کھلاؤ دو۔ انسان کے لئے یہ سب سے بڑا گناہ ہے کہ اپنے غلاموں کے خورو نوش کا خیال نہ رکھے۔ غلام کو نہ کبھی برا بھلا کہتے تھے اور نہ کبھی ان کو مار پیٹ کرتے تھے اور اگر کبھی غصہ کی حالت میں ایسا کوئی فعل سرزد ہو جاتا تو اسکو کفارہ کے طو رپر آزاد کر دیتے۔ سالم کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ نے ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی کسی غلام کو لعنت ملامت نہیں کی۔ ایک مرتبہ غصہ میں الع کہنے پائے تھے کہ زبان روک لی اور فرمایا ’’میں ایسی بات زبان سے نکال رہا ہوں جو نہ نکالنی چاہئے‘‘۔ ایک مرتبہ ایک غلام کو کسی بات پر مار بیٹھے، مارنے کے بعد اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کو آزاد کر دیا۔