حق گوئی و بے باکی ہمیشہ سے علماء اسلاف کا شعار رہی ہے۔ اہل حق نے کبھی باطل کی غلامی قبول نہ کی۔ حضرت ابن عمرؓ بھی انہی مجاہدین اسلام میں تھے۔ آپ بنی امیہ کے جابرانہ طرز عمل پر نہایت سختی سے نکتہ چینی کرتے تھے، حجاج کے مظالم سے دنیائے اسلام تنگ آ گئی تھی مگر کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی
لیکن حضرت ابن عمرؓ بے خوف و خطر حق بات اس کے منہ پر کہہ دیتے۔ ایک مرتبہ حجاج خطبہ دے رہا تھا حضرت ابن عمرؓ بھی تھے آپ نے فرمایا یہ خدا کا دشمن ہے اس نے حرم الٰہی کو رسوا کیا، بیت اللہ کو تباہ کیا اور اولیاء اللہ کو قتل کیا۔ مرض الموت میں جب حجاج عیادت کو آیا اور انجان بن کر کہا کاش زخمی کرنے والے کا مجھ کو علم ہو جاتا تو بگڑ کر کہا کہ وہ تمہارا نیزہ تھا، حجاج نے پوچھا یہ کیسے فرمایا؟ تم نے ایام حج میں لوگوں کو مسلح کیا اور حرم محترم میں ہتھیاروں کو داخل کیا پھر پوچھتے ہو کس نے زخمی کیا۔ ایک مرتبہ حجاج مسجد میں خطبہ دے رہا تھا اس کو اس قدر طول دیا کہ عصر کا وقت آخر ہو گیا آپ نے آواز دی کہ نماز کا وقت جا رہا ہے تقریر ختم کرو اس نے نہ سنا دوبارہ پھر کہا اس مرتبہ بھی اس نے خیال نہ کیا، تیسری مرتبہ پھر کہا تین مرتبہ کہنے کے بعد حاضرین سے فرمایا کہ اگر میں اٹھ جاؤں تو تم بھی اٹھ جاؤ گے لوگوں نے کہا ہاں چنانچہ یہ کہہ کر معلوم ہوتا ہے کہ تم کو نماز کی ضرورت نہیں ہے اٹھ گئے اس کے بعد حجاج منبر سے اتر آیا اور نماز پڑھی اور ابن عمرؓ سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کہا کہ ہم لوگ نماز کے لئے مسجد میں آتے ہیں اس لئے جب نماز کا وقت ہو جائے تو اس وقت فوراً تم کو نماز پڑھنی چاہئے نماز کے بعد جس قدر تمہارا دل چاہے تقریر کرتے رہا کرو۔