حدیث کی تلاش و جستجو نے ابن عمرؓ کو حدیث کا دریا بنا دیا تھا جس سے ہزاروں لاکھوں مسلمان سیراب ہوئے ان کی ذات سے حدیث کا وافر حصہ اشاعت پذیر ہوا، حضرت ابن عمرؓ آنحضرتﷺ کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے اس میں آپ کا مشغلہ صرف علم کی اشاعت تھا۔
اسی لئے آپ نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا کہ اس سے یہ مبارک سلسلہ منقطع ہو جاتا، مدینہ میں مستقل حلقہ درس تھا، اس کے علاوہ اشاعت کے لئے سب سے بہترین موقع حج کا تھا جس میں تمام اسلامی ملکوں کے مسلمان جمع ہوتے تھے، چنانچہ آپ اس موقع پر فتویٰ دیتے تھے، اس سے بہت جلد مشرق سے مغرب تک احادیث پھیل جاتی تھیں، لوگوں کے گھروں پر جا کر حدیث سناتے تھے زید بن سلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ابن عمرؓ کے ساتھ عبداللہ بن مطیع کے یہاں گئے، عبداللہ بن مطیع نے خوش آمدید کہا اور ان کے لئے بچھونا بچھایا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس وقت تمہارے پاس صرف ایک حدیث سنانے کی غرض سے آیا ہوں رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ جس شخص نے (امیر کی) اطاعت سے دست برداری کی وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو گی اور جو شخص جماعت سے الگ ہو کر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔