تلاوت قرآن کے ساتھ آپ کو غیر معمولی شغف تھا، اس کی سورہ و آیات پر فکر و تدبر میں عمر عزیز کا بہت بڑا حصہ صرف کیا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ صرف بقرہ پر 14 برس صرف کئے۔ اس غیر معمولی شغف نے آپ میں قرآن کی تفسیر و تاویل کا غیر معمولی ملکہ پیدا کر دیا تھا۔
فہم قرآن کا ملکہ آپ میں عنفوان شباب ہی میں پیدا ہو گیا تھا، چنانچہ اکابر صحابہؓ کے ساتھ آنحضرتﷺ کی علمی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے گرد صحابہؓ کا مجمع تھا، ابن عمرؓ بھی موجود تھے، آنحضرتﷺ نے قرآن پک کی اس مثال ’’ترجمہ: تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی اچھی مثال دی ہے کہ وہ پاک درخت کے مثل ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان تک ہیں وہ اپنے خدا کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے (ابراہیم25-26)کے متعلق صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ وہ درخت کون سا ہے جو مرد مسلم کی طرح سدابہار ہے اس کے پتے کبھی خزاں رسیدہ نہیں ہوتے اور ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے اس سوال کے جواب میں تمام صحابہ حتیٰ کہ حضرت ابوبکر، عمر رضی اللہ عنہم اجمعین تک خاموش رہے تو آپؐ نے خود بتایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ ابن عمرؓ پہلے ہی سمجھ چکے تھے لیکن اکابر صحابہؓ کی خاموشی کی وجہ سے چپ رہے، جب حضرت عمرؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے جواب کیوں نہ دیا تمہارا جواب دینا مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ محبوب ہوتا۔