حضرت عبداللہ بن موہب رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے حضرت ابن عمرؓ سے فرمایا جاؤ اور لوگوں کے قاضی بن جاؤ۔ ان میں فیصلے کیا کرو۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا اے امیرالمومنین! کیا آپ مجھے اس سے معاف رکھیں گے؟ حضرت عثمانؓ نے کہا نہیں۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں۔
تم جا کر لوگوں کے قاضی ضرور بنو۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا آپ جلدی نہ کریں۔ کیا آپ نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اللہ کی پناہ چاہی وہ بہت بڑی پناہ میں آ گیا۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا ہاں۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا میں قاضی بننے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا تم قاضی کیوں نہیں بنتے؟ حالانکہ تمہارے والد تو قاضی تھے۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو قاضی بنا اور پھر نہ جاننے کی وجہ سے غلط فیصلہ کر دیا تو وہ دوزخی ہے اور جو قاضی عالم ہو او حق و انصاف کا فیصلہ کرے وہ بھی یہ چاہے گا کہ وہ اللہ کے ہاں جا کر برابر برابر پر چھوٹ جائے( نہ انعام ملے اور نہ کوئی سزا لگے) اب اس حدیث کے سننے کے بعد میں قاضی بننے کا خیال کر سکتا ہوں؟ امام احمد کی روایت میں اس کے بعد یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ان کے عذر کو قبول کر لیا اور ان سے فرمایا کہ تم کو تو معاف کر دیا لیکن تم کسی اور کو یہ بات نہ بتانا (ورنہ اگر سارے ہی انکار کرنے لگ گئے تو پھر مسلمانوں میں قاضی کون بنے گا؟ اور یہ اجتماعی ضرورت کیسے پوری ہو گی؟)