سلیمان بن عبدالملک دابق میں مقیم تھا کہ یہیں مرض الموت میں مبتلا ہو گیا۔ اس وقت تک ولی عہد کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ جب حالت زیادہ خراب ہوئی اور وہ زندگی سے مایوس ہو گیا تو اس نے اپنے نابالغ بیٹے ایوب کو اپنا ولی عہد نامزد کیا۔ اس وقت ’’محدث رجاء بن حیوۃ کندی‘‘ اس کے پاس موجود تھے۔ انہوں نے کہا: ’’امیرالمومنین! خلیفہ کسی صالح، نیک اور امین و دیانتدار آدمی کو بنانا چاہیے،
تاکہ قبر میں امن اور قیامت کے روز شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔‘‘ سلیمان چونکہ نیک فطرت اور سلیم الطبع شخص تھا چنانچہ محدث رجاءؒ کی یہ بات اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ وہ اس مسئلہ پر غور کرنے لگا۔ دو دن کے بعد اس نے اپنا وصیت نامہ چاک کر ڈالا اور رجاء بن حیوۃؒ سے پوچھا ’’میرے لڑکے داؤد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’وہ اس وقت قسطنطنیہ کی مہم پر ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا مر گیا ہے۔‘‘ کیونکہ قسطنطنیہ کی فوج کا ایک بہت بڑا حصہ ہلاک ہو گیا تھا اور داؤد کے بارے میں پتہ نہیں تھا کہ وہ زندہ ہے یا وہ بھی ہلاک ہو گیا ہے۔سلیمان نے کہا ’’اب آپ کی کیا رائے ہے؟ کس کو خلیفہ نامزد کیا جائے؟‘‘۔ رجاء نے کہا ’’امیر المومنین! نامزدگی تو آپ نے کرنی ہے لہٰذا اصل رائے تو آپ کی ہے آپ نام لیجئے میں غور کروں گا۔‘‘ سلیمان نے کہا ’’عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ رجاء نے جواب دیا ’’میرے نزدیک وہ نہایت فاضل، نیک، سلیم الفطرت، دیانت دار اور برگزیدہ مسلمان ہیں۔‘‘ سلیمان نے کہا ’’بخدا! میرا بھی یہی خیال ہے لیکن اگر عبدالملک کی اولاد کو بالکل نظرانداز کر دیا جائے اور ان کے بجائے عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ بنا دیا جائے تو ایک بڑا فتنہ پیدا ہو جائے گا اور لوگ ان کو خلافت پر قائم نہ رہنے دیں گے،
لہٰذا میں عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ اور ان کے بعد یزید بن عبدالملک کو ولی عہد نامزد کرتا ہوں۔ اس سے لوگ کافی حد تک مطمئن ہو جائیں گے اور عمر بن عبدالعزیز کی خلافت تسلیم کر لیں گے۔ بات کافی حد تک معقول تھی لیکن اس نظام حکومت میں عبدالملک کی اولاد اپنے کو عمر بن عبدالعزیز سے زیادہ خلافت کی مستحق سمجھتی تھی۔ رجاء نے سلیمان کی اس بات کی تائید کی۔
چنانچہ اس وقت سلیمان نے خود اپنے ہاتھ سے یہ وصیت نامہ تحریر کیا: ’’بسم اللہ الرحمان الرحیم، یہ تحریر خدا کے بندے سلیمان بن عبدالملک امیر المومنین کی طرف سے عمر بن عبدالعزیزؒ کے لیے ہے، میں اپنے بعد آپ کو خلیفہ بناتا ہوں اور آپ کے بعد یزید بن عبدالملک کو۔ لہٰذا مسلمانو! ان کا کہنا سننا اور ان کے احکام کی اطاعت کرنا۔ اللہ تعالیٰ سے ہر حالت میں ڈرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا کہ دوسرے لوگ آپ پر حرص کی نگاہ ڈالیں۔‘‘
یہ وصیت نامہ سرمہر کرکے محدث رجاء بن حیوۃ کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ وہ خاندان کے لوگوں کو اکٹھا کرکے بغیر نام کے ظاہر کیے ان سے نامزد خلیفہ کی بیعت لے لیں۔ چنانچہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی۔ اور بیعت کر لی، اس کے بعد پھر سب اہل خاندان سلیمان کو دیکھنے کے لیے گئے اور ان کے سامنے سب نے فرداً فرداً بیعت کی۔