اگر آپ تہجد نہیں پڑھتیں کسی دعا کے لئے ‘ تو اس کا مطلب ہے آپ اس کو پانے کے لئے خود بھی سیرئیس نہیں ہیں۔ شدید پریشانی کے حالات میں دعائیں بھی شدید مانگنی ہو تی ہیں۔ یہ پانچ وقت کی نماز کے بعد روٹین کی طرح دعا مانگنا کافی نہیں ہوتا۔ جتنی بڑی آزمائش ہے ‘ اتنا زیادہ اپنی دعا کو بڑھائیں۔’مگر یہ کیسے پتا لگے گا کہ یہ آزمائش ہے یا گناہوں کی سزا؟ یہ فرق کیسے معلوم کروں؟معلوم کر کے کیا کریں گی؟ سزا ہوئی تو معافی مانگیں گی‘ آزمائش ہوئی تو دعا کریں گی کہ
اللہ اس میں کامیاب کرے؟ مجھ سے پوچھیں تو یہ معلوم کرنا لا یعنی ہے۔ اس بحث کو چھوڑ دیں اور یہ دونوں کام کرتی رہیں۔آپ کو پتہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پہ آزمائش کیوں ڈالتا ہے؟۔بھیگے چہرے کے ساتھ انھوں نے نفی میں سر ہلایا۔’’بعض دفعہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کوئی اونچا درجہ دے دیتا ہے ‘ مگر اس کے اعمال اتنے نہیں ہوتے کہ وہ اس درجے تک پہنچ جائے۔ یعنی وہ اچھا آدمی ہوتا ہے مگر بہت زیادہ نیکیاں نہیں کر پا رہا ہوتا۔ اور اللہ تعالیٰ نا انصافی تو نہیں کر سکتا نا‘ سو اس شخص کو اس درجے تک پہنچانے کے لئے۔۔۔سمجھیں پہلی سیڑھی پہ کھڑے شخص کو دسویں سیڑھی تک پہنچانے کے لئے اللہ اس پہ پریشانیاں ڈالتا ہے ‘ تاکہ اس کے گناہ جھڑیں۔ ظاہر ہے گناہ کم ہو ں گے تو وہ اوپر اٹھتا جائے گا۔جس دن وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے ‘ اس کی آزمائش کھول دی جاتی ہے۔ یہ میری خود سے گھڑی بات نہیں ہے‘ یہ صحیح حدیث کا مفہوم ہے۔’’مطلب کہ…یہ سب ہمیں کسی مقام تک پہنچانے کے لئے ہوتا ہے؟‘‘’’جی۔ اب یہ آپ پہ ہے کہ آپ اس مقام تک کتنی جلدی پہنچتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں‘ تو جلدی زینے عبور کریں گی ‘ حدیث میں آتا ہے کہ انسان کو کوئی چیز ملنے والی ہوتی ہے کہ اس کے گناہ آڑے آ جاتے ہیں۔ اس لئے گناہوں سے بچیں‘ اور زیادہ سے زیادہ اچھے اعمال کریں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کشادگی کا انتظار بہترین عبادت ہے۔ اس لئے اپنی کشادگی کاانتظار کرے۔
نمرہ احمد کے ناول نمل سے اقتباس