حضرت ابوذر غفاریؓ کو تعلیم و تعلم سے بہت لگاؤ تھا۔کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو صبح اٹھے اور قرآن کی ایک آیت سیکھ لے یہ تمہارے لیے اس سے کہیں بہتر ہے کہ رات بھر جاگ کرسو رکعت نفل ادا کرے۔ تو دن میں علم کا ایک باب سیکھ لے جس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہواس سے کہیں بہتر ہے کہ ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرے۔حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ہم سب مغرب کی طرف رخ کیے پیدل چل رہے تھے۔
سورج سرخ گولے کے مانند نظر رہا تھا،ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے غروب ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: تمھیں معلوم ہے کہ سورج ڈوب کر کہاں جاتا ہے؟میں نے کہا‘ اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: سورج سفر کرتا ہوا عرش کے سایہ میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے‘ پھر طلوع کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے۔وہ وقت قریب ہے کہ سجدہ کرے گا تو قبول نہ ہو گا۔اذن چاہے گا اور نہ ملے گا۔اسے کہا جائے گا: جہاں سے آئے ہو‘ وہیں لوٹ جاؤ۔تب وہ مغرب سے نکلے گا۔
عالم دین کی قبر سے یورپی لڑکی نکل آئی!
مکہ مکرمہ میں ایک عالمِ دین کا انتقال ہوا۔ انہیں مسلمانوں کے ایک عام قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اِنکی وفات کے کچھ سالوں کے بعد ایک اور شخص کا انتقال ہوا۔ چونکہ عرب کا دستور ہے کہ جب کوئی قبر پرانی ہو جاتی ہے تو پرانے مردے کی جگہ نیا مُردہ دفن کر دیتے ہیں، اور اِسطرح کئی کئی مُردے ایک ہی قبر میں دفن ہوتے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس شخص کو دفن کرنے کے لیے اُس عالمِ دین کی قبر کھولی گئی تاکہ اس شخص کو بھی اسی قبر میں دفن کر دیا جائے
لیکن قبر کھولتے ہی ایک عجیب و غریب منظر نظروں کے سامنے تھا۔قبر میں اس عالمِ دین کی میت کی بجائے ایک نہایت حسین لڑکی کی میت تھی اور وہ لڑکی کسی یورپین ملک کی معلوم ہوتی تھی۔ سب لوگ بہت حیران ہوئے اور یہ بات تھوڑی ہی دیر میں سارے علاقے میں پھیل گئی کہ “فلاں عالم کی قبر میں انکی میت کی جگہ ایک حسین لڑکی کی لاش ہے، لوگ دور دور سے یہ منظر دیکھنے کیلئے آئے!”اتفاق سے وہاں پورپ کے کسی ملک سے آنے والا ایک مسلمان سیاح بھی موجود تھا، جو حج کے ارادے سے مکہ آیا ہوا تھا۔ اس نے جب اس لڑکی کی صورت دیکھی تو کہا کہ “میں اس لڑکی کو جانتا ہوں یہ فرانس کی رہنے والی ہے اس کا سارا گھرانہ عیسائی ہے لیکن یہ خفیہ مسلمان ہوگئی تھی اور
اس نے مجھ سے بھی اسلام کی کچھ کتابیں پڑھیں تھی، پھر کچھ دن بعد یہ بیمار ہو کر فوت ہوگئی تو گھر والوں نے اِسے عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کر دیا تھا اور اب حیرت ہے اس کی میت یہاں (مکہ) پہنچی ہوئی ہے۔۔!”لوگوں نے کہا کہ “اس لڑکی کی میت یہاں منتقل ہونے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ یہ نیک اور مسلمان تھی لیکن پھر عالمِ دین کی میت کہاں گئی۔۔۔؟”، کسی نے کہا “ہو سکتا ہے اُنکی میت اِس لڑکی کی قبر میں چلی گئی ہو۔۔!”اس سیاح نے کہا کہ “میں حج سے فارغ ہو کر چند دن میں واپس جا رہا ہوں میں اس لڑکی کے ورثاء سے مل کر اسکی قبر کشائی کر کے دیکھوں گا کہ آخر کیا معاملہ ہے۔۔؟”،
ان لوگوں نے عالمِ دین کے ورثاء میں سے ایک شخص اس سیاح کے ساتھ بھیج دیا۔سیاح نے اپنے ملک واپس جا کر لڑکی کے والدین سے سارا قصہ بیان کیا، وہ بہت حیران ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے لڑکی کی قبر کشائی کی تو حیران کن طور پر لڑکی کے تابوت میں اس عالمِ دین کی میت تھی جو مکہ میں دفن ہوا تھا وہ لوگ بہت حیران اور پریشان ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔؟مکہ میں جب یہ خبر پہنچی کے اس عالمِ دین کی میت عیسائیوں کے قبرستان میں اس لڑکی کی قبر میں ہے تو سب کو بہت حیرانگی ہوئی کہ “لڑکی کا یہاں منتقل ہونا تو اسکے مسلمان ہونے اور نیک ہونے کی وجہ سے تھا لیکن عالمِ دین سے ایسا کونسا گناہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں عیسائیوں کے قبرستان میں منتقل کر دیا گیا۔۔۔؟
“چنانچہ اسکی بیوی سے پوچھا گیا کہ “تیرے شوہر میں ایسی کونسی بات تھی جو اس کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا۔۔۔؟اس کے بیوی نے کہا کہ، “میرا شوہر تو بہت نیک اور نمازی انسان تھا، تہجد گزار اور قرآنِ پاک کا پڑھنے والا تھا۔۔۔!”لوگوں نے کہا کہ سوچ کر بتاؤ، آخر کوئی تو ایسی بات ہوگی جس وجہ سے یہ اتنا سب کچھ ہو گیا۔۔۔!”بیوی نے غور کر کے کہا کہ، “اس کی ایک بات پر میں ہمیشہ کھٹکتی تھی کہ جب بھی اس پر غسل جنابت واجب ہوتا تو وہ نہانے سے پہلے کہتا کہ عیسائیوں کے مذہب میں یہ بات بہت اچھی ہے کہ ان پر یہ غسل واجب نہیں ہے ہمیں سردی میں بھی نہانا پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے اِسی وجہ سے اللہ نے اُسے انکے درمیان ہی پہنچا دیا جن کے طریقے کو وہ پسند کرتا تھا اور اسلامی احکام اُسے ٹھیک نہیں لگتے تھے۔۔!”
حوالہ جات: (کتاب: “ذم النسیان” صفحہ نمبر: 2،
کتاب: “مواضہ اشرفیہ” جلد نمبر: 4، صفحہ نمبر: 322)