سراقہ بن مالک نے اپنی زرہ پہنی، تلوار سنبھالی اور گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر فراٹے بھرتے ہوئے حضور اکرمﷺ کو تلاش کیا، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اسے ٹھوکر لگی اور گھوڑے سے نیچے گر گیا اور اس وقت تک اس کی آنکھوں نے آنحضورﷺ کے معجزات کا مشاہدہ کیا تو عرض کیا: خدا کی قسم! اے محمدﷺ! مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ کا دین ضرور غالب ہو کر رہے گا اور آپ کی شان بلند ہو گی۔
آپ مجھ سے عہد کریں کہ جب میں آپ کے پاس آپ کے ملک میں آؤں تو میرا اکرام کریں گے اور یہ میرے لئے لکھ دیں۔ حضورﷺ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک ہڈی کی لوح پر لکھ دیا اور حضور نبی کریمﷺ نے سراقہ سے فرمایا کہ اے سراقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تو کسریٰ کے کنگن پہنے گا؟ بعدازاں سراقہ مسلمان ہو گیا اور مدینہ منورہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر بھی ہوا۔ زمانہ کے حالات میں تغیر آیا۔ مسلمانوں کو قادسیہ میں فتح حاصل ہوئی اور مال غنیمت مدینہ آیا۔ اس میں کسریٰ کا تاج بھی تھا اور اس کے سونے کی تاروں سے بنے ہوئے کپڑے اور جواہرات سے آراستہ ہار بھی تھا اور اس کے دو ایسے کنگن بھی تھے کہ کسی کی آنکھ نے اس جیسے کنگھن دیکھے نہ ہوں گے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آواز دی۔ سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہاں ہے؟ سراقہ حاضر ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو کسریٰ کی قمیض اور اس کے کنگن پہنائے اور اس کی تلوار گردن میں لٹکائی اور ان کے سر پر کسریٰ کا تاج رکھا۔ حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سب کے سامنے جھوم جھوم کر چلنے لگے، آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ رسول اللہﷺ نے سچ فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آسمان کی طرف اپنا سرا ٹھایا اور بارہ رب العزت میں عرض گزار ہوئے۔
اے اللہ! تو نے یہ مال اپنے پیغمبر کو نہیں دیا جبکہ وہ آپ کو مجھ سے زیادہ محبوب اور مکرم تھے اور یہ مال ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیا جب کہ وہ آپ کو مجھ سے زیادہ محبوب اور مکرم تھے، آپ نے مجھے یہ مال دیا لیکن میں آپ کی اس سے پناہ پکڑتا ہوں اگر میری آزمائش کے لئے آپ نے مجھے یہ مال دیا ہو۔