حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمارے ایک قریبی دوست نے دعوت کی۔ ایک خانساماں نے عورتوں کی طرف بھی کھانا بھجوایا۔ وہ افسروں کی بیویاں تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے پیغام آیا کہ کھانا تو سارا آ گیا ہے،
لیکن سلاد ہی نہیں آیا تو اس خانساماں نے پیغام بھجوایا کہ بیگمات سے کہو کہ تمہاری تو عمر گزر گئی ہے کھانا پکاتے ہوئے، یہ درمیان میں تمہیں جو سویٹ ڈش کی طرح پھل نظرآ رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں ہم نے سلاد بنایا ہوا ہے۔ اس نے سلاد کو اس طرح کاٹا تھا کہ وہ انسان کو دیکھنے میں کوئی شو پیس نظر آتا تھا اور عورتیں باجود اپنی نفاست پسندی کے اس کو ہاتھ ہی نہیں لگا رہی تھیں کہ یہ تو دیکھنے کے لیے کوئی ماڈل سامنے رکھا ہوا ہے۔ وہ کوئی ماڈل نہیں تھا بلکہ اس نے سلاد کاٹ کر رکھا ہواتھا۔ پھر جب عورتوں نے کھانا شروع کیاتو انہوں نے مان لیا کہ اس شخص کو اپنے فن میں بڑا تجربہ حاصل ہے۔ غور کیجئے کہ شیر اور چیتے ساری زندگی کچا گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے اندر عقل نہیں ہے کہ وہ گوشت کے ساتھ سبزی ملا کر کھالیں۔ اس کو بھون کو کھا لیں یا گوشت کو سوپ بنا کر پی لیں۔ اس کے برعکس انسان کو دیکھیں، گوشت کی کتنی ڈشز بنا لیتا ہے! عورتیں کھانے کے ساتھ تو سویٹ ڈشز بھی بنا لیتی ہیں۔