وہ کیک کو دیکھ رہی تھی اور ضد کر رہی تھی کہ امی لے دو نہ پلیز بابا کی سالگرہ ہے لے دو نا ، ماں بار بار منع کررہی تھی کہ چندہ پیسے نہیں ہیں ، بعد میں لے دوں گی۔ وہ ضد کرتی رہی تو ماں نے کہا جاؤ مفت ملتا ہے تو لے اور وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ کیک کے قریب کیبن کے پاس کھڑی ہوگئی ، ایک شخص وہ کیک اٹھانے لگا تو بولی ، انکل یہ میں نے لینا ہے ، وہ مسکرایا اور بولا یہ لو بیٹا اور وہ کیک پکڑ کر ماں کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔
کاؤنٹر پر بل بنا تو پیسے زیادہ بنے ، ماں نے کیک نکلوا دیا اور سامان لیکر باہر آگئی، بیٹی کیک کو دیکھ کر روتی رہی، وہ شخص کاؤنٹر پر آیا ، کیک کو دیکھا تو بولا یہ وہ چھوڑ گئی ہیں تو میں خرید لوں اور کاؤنٹر پر پیسے دیکر باہر آیا اور بچی کو کیک دیا اور بولا یہ لو بیٹا رکھ لو، ماں بولی نہیں نہیں ہم نہیں لیں گے، تو وہ بولا کہ رکھ لیں میرا کسی پر قرض ہے وہ اتر جائے گا، ماں نے کہا کہ اچھا اپنا پتہ لکھ دیں ، جب پیسے ہوں گے میں بھجوا دوں گی ، اس نے کاغذ پر پتہ لکھا اور دیدیا ، خاتوں بولی آپ نے کس کا قرض دینا ہے تو وہ بولا میں بھی اسی طرح ایک دن کیک لینے کھڑا تھا اور پیسے نہیں تھے کسی مہربان نے میری مدد کی تھی ، یہ کہہ کر وہ چلا گیا ، ماں بیٹی جب گھر آئے تو بیٹی دوڑ کر اپنے بابا کہ پاس گئی اور کہا بابا ہیی برتھ ڈے ٹو یو ، میں آپ کیلئے کیک لائی ہوں ، وہ بیوی سے بولا کہ کیا ضرورت تھی پیسے نہیں تھے اتنے پھر منا لیتے سالگرہ۔ بیٹی بولی بابا یہ کسی نے تحفہ دیا ہے ایک انکل نے لے کر دیا ان کا پتہ بھی ہے، اس نے ماں سے کاغذ لے کر بابا کو دیا ، جب اس نے کھولا تو اس پر لکھا تھا “A Man in the Q” اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے کیونکہ یہ وہ ہی لفظ تھے جو اُس نے بہت عرصہ پہلے ایک بچے کو کاغذ پر لکھ کر دیئے تھے جب اس کے بابا کی سالگرہ تھی اور پیسے نہیں تھے۔