ایک مچھر حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ آپ انصاف کرنے والے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ انصاف کرنے میں مشہور ہیں۔ آپ کی حکومت دنیا کی ہر ایک چیز پر قائم ہے۔ آپ سب کی مشکلات حل کرتے ہیں۔ میں بھی آپ سے انصاف کاطلب گار ہوں۔ ہم ایک کمزور مخلوق ہیں۔ آپ کی قدرت انتہا پر اور ہماری کمزوری انتہا پر ہے۔ آپ کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں فکر اور پریشانی سے نجات دلائیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے دریافت کیا کہ وہ کون ہے جس نے تمہیں تکلیف میں مبتلا کیا ہے کیونکہ میں کسی کو کسی پر ظلم کرنے کی اجازت فراہم نہیں کرتا۔ میں نے تو تمام شیطانوں کو قید کر رکھا ہے تاکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچائیں۔ میں مظلوموں کی داد رسی کرتا ہوں۔ تم مجھے بتاؤ کہ تمہیں کس نے پریشان کیا ہے۔مچھر نے فریاد کی کہ جناب ہم ہوا کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ ہم اس کے مقابلے میں ما سوائے فریاد کے کچھ نہیں کر سکتے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فیصہ صادر کرنے سے قبل دونوں فریقوں کی بات بخوبی سنوں اور اس کے بعد فیصلہ سر انجام دوں۔ مدعی کابیان سننے کے بعد مدعا علیہ کا بیان سننا بھی ضروری ہے۔ لہذا مد عا علیہ کو بھی حاضر کیا جائے۔ مچھر نے عرض کی کہ مدعا علیہ بھی آپ کے زیر فرمان ہے۔ آپ اس کو بھی حاضری کاحکم صادر فرمائیں۔لہذا حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ہوا جب تیزی کے ساتھ حاضر ہوئی تب مچھر تیزی کے ساتھ بھاگ نکلا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اے مچھر تم یہاں رکوتا کہ دونوںفریقین کی موجودگی میںفیصلہ صادر فرمایا جائے۔ جس طرح کا وجود مچھر کی فنا ہے اسی طرح وصل حق واصل کی فنا ہے۔ وصل سے اگرچہ بقاباللہ حاصل ہوتی ہے لیکن اس سے قبل مقام فنا سے گزرنا پڑتا ہے۔